پشاور: پشاور یونیورسٹی کے طلبہ کا آن لائن امتحانات کا مطالبہ منظور!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، پشاور|

26 جنوری کو پشاور یونیورسٹی کے طلبہ نے آن لائن امتحانات کے مطالبے کے لیے اور آن کیمپس امتحانات کی پالیسی کے خلاف بدستور اپنا احتجاج جاری رکھا جس میں سینکڑوں طلبہ شریک ہوئے۔ یہ احتجاج پچھلے ایک ہفتے سے تسلسل کے ساتھ جاری تھا جسے یونیورسٹی کے عام طلبہ نہایت پرامن طریقے سے منظم کرتے آ رہے تھے لیکن یونیورسٹی انتظامیہ اور خاص طور پر وائس چانسلر، جو یونیورسٹی کا خدا بنا بیٹا ہے، طلبہ کے مطالبات ماننے سے تو انکاری تھا ہی لیکن اس پورے عرصے میں اس نے طلبہ کے پاس آ کر ان کی بات سننے کے لیے ایک بار ملاقات کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ یعنی ان ہی طلبہ سے ایک ملاقات اور بات کرنے کے لائق بھی نہ سمجھا گیا جن کی فیسوں سے یہ یونیورسٹی چل رہی رہے۔ وائس چانسلر کو طلبہ کی فیسوں سے تنخواہ، مراعات اور عیاشیاں حاصل ہو رہی ہیں اور پوری انتظامیہ اپنا پیٹ پال رہی ہے اس لیے انہیں طلبہ کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

کل صبح طلبہ ایک بار پھر وائس چانسلر کے دفتر کے سامنے احتجاج کے لیے اکھٹے ہوئے۔ حسب معمول طلبہ نے کسی روایتی تنظیم سے کوئی اپیل نہیں کی لیکن کل طلبہ کے احتجاج میں یونیورسٹی کی ایک پرانی تنظیم پشتون ایس ایف کی طرف سے مختصر وقت کے لیے احتجاج میں شامل ہونے اور مصنوعی طور پر اس احتجاج کے ساتھ خود کو جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن احتجاج میں شامل ہونے کے بعد جب انہوں نے طلبہ کے آن لائن امتحانات کے مطالبے سے اختلاف کرتے ہوئے احتجاج کو ختم کروانے کی کوشش کی تو طلبہ نے ان کی زبردست سرزنش کرتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا جس کے بعد وہ آہستہ سے پتلی گلی اختیار کرتے ہوئے اپنے مقصد میں ناکامی کے ساتھ واپس نکل گئے۔

اس صورتِ حال میں وائس چانسلر کے ضد پر قائم رہنے کے بعد طلبہ نے مجبوراً یونیورسٹی کے مین گیٹ کی طرف مارچ کیا اور گیٹ کے سامنے یونیورسٹی روڈ کو ایک بار پھر بلاک کر دیا۔ طلبہ کو ڈرانے اور منتشر کرنے کی غرض سے انتظامیہ نے حسبِ معمول ایک بڑی تعداد میں پولیس تعینات کروائی اور پھر طلبہ کی آرگنائزنگ کمیٹی کے نمائندوں کو بہلا پھسلا کر اور انہیں ڈرا دھمکا کر احتجاج ختم کروانے کی کوشش کی لیکن طلبہ آن لائن امتحانات کا اعلان نامہ جاری کروانے کے مطالبے سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ جس کے نتیجے میں بالآخر انتظامیہ طلبہ کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور ہو گئی اور طلبہ نے آن لائن امتحانات کا اعلان نامہ لینے کے لیے اپنا ایک وفد انتظامیہ کے پاس بھیج دیا۔

طلبہ نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے رات دیر تک وائس چانسلر کے دفتر کے سامنے ڈیرا ڈال کر میوزک لگائے رکھا اور مخصوص علاقائی رقص اور اتن کرتے رہے۔ اس تمام صورتِ حال کو دیکھ کر انتظامیہ اور وائس چانسلر کو بالآخر اپنی ہٹ دھرمی سے پیچھے ہٹتے ہوئے آن لائن امتحانات کا اعلان نامہ جاری کرنا پڑا جس میں رواں سمیسٹر کے امتحانات فیزیکل کی بجائے آن لائن لینے کے فیصلے کا اعلان کیا گیا۔ یونیورسٹی کے طلبہ نے کل آخری دن اپنی طویل جدوجہد کے بعد کامیابی کا جشن منایا، روایتی رقص اور اتن کیے اور اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔

یہ احتجاج پشاور یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے ایک بڑا تجربہ ثابت ہوا جس میں انہوں نے چند اہم اسباق بھی حاصل کئے۔ ان طلبہ کو سب سے اہم سبق یہ حاصل ہوا کہ انہوں نے اپنے حق کے لیے احتجاج کرنے اور طلبہ اتحاد کی اہمیت کو جان لیا، انتظامیہ کے افسروں اور نمائندگان کے اصل چہرے، ان کی دھوکے بازی اور ٹال مٹول کو پہچان لیا، انتظامیہ کا پولیس اور انتظامیہ کی سیکیورٹی فورسز کے نام طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنانے کا اصلی مقصد بے نقاب ہو گیا۔ آخر میں سب سے اہم بات یہ کہ طلبہ نے اس پورے احتجاجی سلسلے کے اندر طلبہ کی اپنی نمائندہ یونین کی کمی اور ضرورت کو محسوس کیا۔ احتجاجی طلبہ نے اس احتجاج کے دوران یہ عزم بھی ظاہر کیا کہ انہوں نے آن لائن امتحانات کے مطالبے کو لے کر جس احتجاج کا آغاز کیا ہے، وہ اب اس سلسلے کو طلبہ یونین کی بحالی کے لیے، فیسوں میں اضافے اور طلبہ کے دیگر مسائل کے خلاف جدوجہد کے ساتھ ملا کر طلبہ یونین کی شکل میں ایک مضبوط طلبہ قوت بنا کر سامنے لائیں گے۔

پروگریسو یوتھ الائنس کے ساتھی شروع دن سے پشاور یونیورسٹی کے طلبہ کی اس تحریک میں شامل رہے اور ان احتجاجوں کو منظم کرنے میں بہت شاندار کردار ادا کیا۔ پروگریسو یوتھ الائنس کے ساتھیوں نے احتجاج کے شروع دن سے طلبہ کی ایک نمائندہ کمیٹی منتخب کرنے کی تجویز طلبہ کے سامنے بالکل واضح طور پر رکھی اور بغیر قیادت کے کسی ہجوم کی شکل میں احتجاجی عمل کو بڑھانے پر تنقید کی اور اس تجویز کو طلبہ کی اکثریت کی طرف سے بہت پذیرائی ملی جس کو طلبہ کی جانب سے عملی جامہ پہنانے کی ایک کوشش بھی کی گئی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کامیاب احتجاج بلاشبہ طلبہ کی بہت بڑی کامیابی تھی جس میں جہاں ایک طرف ایک لمبے عرصے کے بعد انہوں نے اپنے حق کے لیے ایک نئی جدوجہد کا آغاز کیا وہیں انہیں اس احتجاج سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملا۔ کوئی عمل بھی حتمی اور آخری نہیں ہوتا۔ بے شک طلبہ اس جدوجہد کے دوران بہت سی غلطیوں سے بھی گزرے، لیکن ثمر آور جدوجہد کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ ان غلطیوں کو دہرانے کی بجائے ان سے سیکھتے ہوئے پہلے سے زیادہ منظم انداز میں اپنی جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔

اس وقت ملک بھر کے مختلف شہروں میں آن لائن امتحانات کے مطالبے کے لیے طلبہ ایک تحریک کی شکل میں احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ جن میں سے کل لاہور میں احتجاجی طلبہ پر پولیس کی جانب سے بے انتہا خطرناک لاٹھی چارج اور جبر بھی کیا گیا ہے۔ ہم طلبہ اور نوجوانوں کی اس جدوجہد کی نہ صرف بھر پور حمایت کرتے ہیں بلکہ ملک بھر میں موجود اس تحریک میں عملی طور پر شامل رہے ہیں۔

اس وقت ان تمام احتجاجوں میں شریک طلبہ کے لیے ہمارا ایک پیغام ہے کہ اب ان احتجاجوں کا سلسلہ رکنا نہیں چاہئے۔ یہ طلبہ تحریک جسے طلبہ نے آن لائن امتحانات کے مطالبے سے شروع کیا ہے، اب اسے طلبہ ہی ملک بھر میں طلبہ یونین کی بحالی اور ہر سطح پر مفت تعلیم کے حصول اور نوجوانوں کے لیے روزگار یا بے روزگاری الاؤنس حاصل کرنے کی جدوجہد تک لے کر جائیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.