ملتان: بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے بلوچستان و سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے سکالرشپس کی بحالی کیلئے الگ الگ لانگ مارچ، مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|

جامعہ زکریا ملتان میں لوٹ مار کا عمل بہت بے دردی سے جاری ہے۔ ایک طرف طلبہ کو دھمکیاں دے کر فیسیں بٹوری جارہی ہیں تو دوسری طرف کوٹہ کی نشستوں کو ختم کیا جارہا ہے اور تعلیمی کاروبار کو بڑھانے کیلئے سیلف کی نشستوں کا بھی اجراء کیا گیا ہے۔ اسی لوٹ مار کے عمل کو جاری رکھتے ہوئے انتظامیہ کی جانب سے بلوچستان اورسابقہ  فاٹا کے طلبہ کی کوٹہ نشستوں پر سکالرشپس کا بھی خاتمہ کیا گیا ہے۔ یہ اقدام یقینا یونیورسٹی انتظامیہ کی بے حسی، کرپشن اور طلبہ دشمنی کی ایک اور واضح مثال ہے۔

پاکستان کی سرکاری یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بلوچستان اورسابقہ  فاٹا سے تعلق رکھنے والے طلبہ کا عمومی طور پر انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق ہوتا ہے۔ بلوچستان اور سابقہ فاٹا کے علاقوں میں دہشتگردی کے نتیجے میں تباہی و بربادی اور تعلیمی اداروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کیلئے ملک کے دیگر صوبوں میں مخصوص نشستیں مختص کی گئیں اور طلبہ کو سکالرشپس مہیا کی گئیں جن کے ذریعے وہ مفت تعلیم حاصل کر سکتے تھے۔ حالیہ عرصے میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کی جانب سے ان مخصوص نشستوں پر دی گئی سکالرشپس کو ختم کرنے کا فیصلہ کر دیا گیا۔

اس طلبہ دشمن اقدام کے خلاف بلوچستان اور فاٹا سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے احتجاج کا رستہ اپنایا اور یونیورسٹی گیٹ کے سامنے دو علیحدہ احتجاجی کیمپ لگائے۔ اس سارے عرصے میں طلبہ کی جانب سے مختلف احتجاج بھی کیے گئے۔ مگر اس سب کے باوجود جب انتظامیہ کی جانب سے کوئی پیش رفت نہ کی گئی تو بالآخر طلبہ نے پیدل لانگ مارچ کرنے کا فیصلہ کیا اور دو علیحدہ پیدل لانگ مارچ ملتان تا اسلام آباد اور ملتان تا کوئٹہ کی جانب نکل پڑے۔

احتجاجی تحریک کی تفصیلات

سکالرشپس کے مشترکہ مسئلے کے خلاف الگ الگ لانگ مارچ ہونے کی بنیادی وجہ جامعہ میں موجود مختلف کونسلوں کی قیادتوں کی مختلف ترجیحات تھیں۔ انکی تفصیلات ہم آگے چل کر زیر بحث لائیں گے، پہلے ہم اس احتجاجی سفر کی کچھ تفصیلات اپنے قارئین کے سامنے پیش کریں گے۔

یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے جب سکالرشپس کے خاتمے کا فیصلہ کیا گیا تو پہلے پہل پارلیمانی نمائندوں اور انتظامیہ کو سفارشات اور عرضیاں بھیجی گئیں مگر کچھ بن نہ پائی جس کے بعد بلوچ سٹوڈنٹس کونسل کی جانب سے یونیورسٹی گیٹ کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا گیا۔ اس کیمپ میں جامعہ میں موجود باقی دو کونسلوں، جن میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پشتون طلبہ کی کونسل اور سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے پشتون طلبہ کی کونسل شامل ہیں، نے اس کیمپ میں شمولیت نہیں کی۔ کچھ عرصہ بعد سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے پشتون طلبہ کی کونسل نے بالآخر احتجاجی کیمپ لگانے کا فیصلہ کیا مگر انہوں نے اپنا کیمپ بلوچ طلبہ سے علیحدہ لگایا۔ جبکہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پشتون طلبہ کی کونسل کی جانب سے اس احتجاجی تحریک میں شمولیت سرے سے کی ہی نہیں گئی۔ سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے پشتون طلبہ کی کونسل نے کچھ ہی عرصے بعد اپنا کیمپ ختم کر دیا اور پارلیمانی ”لیڈروں“ سے ”مذاکرات“ کا سلسلہ شروع کر دیا جبکہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بلوچ طلبہ کی کونسل نے کیمپ 40 روز تک جاری رکھا۔ بالآخر بلوچ کونسل کی جانب سے ملتان تا اسلام آباد لانگ مارچ کا آغاز کر دیا گیا جو حالیہ اطلاعات کے مطابق چیچہ وطنی تک پہنچ چکا ہے۔ جبکہ اس لانگ مارچ کے نتیجے میں باقی کونسلوں کے طلبہ نے اپنی اپنی کونسلوں کی قیادتوں پر اس لانگ مارچ میں شمولیت کیلئے پریشر ڈالنا شروع کر دیا۔ آخر کار بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پشتون طلبہ کی کونسل کی جانب سے بھی لانگ مارچ کرنے کا فیصلہ کیا گیا، مگر انہوں نے بلوچ کونسل سے علیحدہ مارچ (ملتان تا کوئٹہ) کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ لانگ مارچ بھی فی الحال جاری ہے۔ اسی طرح تیسری کونسل (سابقہ فاٹا کے پشتون طلبہ) نے جامعہ کے اندر ہی ”امن واک“ کرنے کا فیصلہ کیا۔

الگ الگ لانگ مارچ کیوں؟

”جب مسئلہ ایک ہے تو پھر الگ الگ مارچ کیوں؟“ یہ وہ سوال ہے جو اس وقت تینوں کونسلوں سے منسلک عام طلبہ کے ذہنوں میں گونج رہا ہے۔ یہاں یہ واضح ہونا چاہیے کہ یہ فیصلہ بلوچستان و سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے تمام طلبہ کا نہیں تھا، بلکہ یہ فیصلہ ان تینوں کونسلوں کی قیادتوں کی جانب سے کیا گیا۔ کیا ان کونسلوں کی قیادتوں کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ اس عمل سے انکی طاقت کم ہوگی اور یونیورسٹی انتظامیہ کا فائدہ ہوگا؟ ہم نہیں سمجھتے کہ ان کونسلوں کی قیادتیں اتنی بے وقوف ہیں۔ تو پھر ایسا کیوں؟ در حقیقت کونسلیں کوئی طلبہ کا سیاسی پلیٹ فارم نہیں ہیں جو طلبہ کے مشترکہ مسائل کو حل کرنے کیلئے بنائے گئے ادارے ہوں بلکہ ان کو فروغ طلبہ یونین پر پابندی لگنے کے بعد والے عرصے میں ملا۔ اسی وجہ سے ان کونسلوں کا حقیقی کردار ہمیشہ سے طلبہ یکجہتی اور سیاسی جدوجہد کے بجائے انتظامیہ سے ”مذاکرات“ کے ذریعے اپنے چھوٹے موٹے مسائل حل کرانے تک ہی محدود رہا۔ اس عمل کا منطقی نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ کونسلوں میں رائج الوقت ”مفادات، ٹھاٹھ باٹھ اور غنڈہ گردی کی سیاست“ کا رجحان حاوی ہو، اور یہی ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کونسل کا ادارہ پہلے جامعہ کے باقی طلبہ سے مکمل طور پر بیگانہ ہوا (البتہ اس ادارے کی بنیادیں ہی نسلی اور لسانی تھیں) اور بعد میں اس کی قیادت حتیٰ کہ کونسل سے تعلق رکھنے والے عام طلبہ اور انکے مسائل سے بھی مکمل طور پر بیگانہ ہوتی چلی گئی۔ ایسے میں جب بھی کبھی کونسل کے طلبہ کو کوئی مسئلہ درپیش آتا تو کونسل کی کسی بھی سیاسی پروگرام کی بنیاد پر حکمت عملی بنانے کی نا اہلیت کھل کر اپنا اظہار کرتی، اور بچگانہ پن اور طلبہ یکجہتی سے نفرت سامنے آتی، جس میں ”بس اپنا کام نکلواؤ“ کی حکمت عملی تیار کی جاتی۔ لہٰذا جب بھی کبھی تعلیمی ادارے میں موجود عام طلبہ کو کوئی مسئلہ درپیش آتا تو انکی حمایت کرنا تو بہت دور کی بات اس کی طرف توجہ بھی نہیں دی جاتی تھی۔ یہی وہ بنیادیں تھیں جن کا نتیجہ پھر یہی نکلنا تھا کہ مشترکہ مسئلہ کیلئے بھی عملی جدوجہد ایک دوسرے سے الگ الگ ہو۔ یہی کچھ ہمیں اس احتجاجی تحریک میں بھی ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔

مشترکہ جدوجہد کی ضرورت

جدوجہد کے طریقہ کار پر ہم نے پہلے ایک تفصیلی تحریر شائع کی تھی جسکی تفصیلات میں یہاں ہم نہیں جائیں گے، یہاں ہم عمومی طریقہ کار پر ہی بات کریں گے۔ وہ تحریر پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔

ایسے ماحول میں جب یونیورسٹی انتظامیہ کورونا وباء کے دوران طلبہ کو بلیک میل کر کے فیسیں بٹور رہی ہے جس کے خلاف ان میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے، کونسلوں کی جانب سے اس ساری صورت حال سے الگ ہو کر احتجاجی تحریک چلانا اور حتیٰ کہ مشترکہ مسئلہ پر بھی الگ الگ جدوجہد کرنا یقیناً احمقانہ فیصلہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ مگر اس کا یہ قطعاً مطلب نہیں کہ احتجاجی تحریک میں شامل طلبہ کو اس کا قصور وار ٹھہرایا جائے۔ بلکہ اس احتجاجی تحریک میں شامل طلبہ کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ بالخصوص بلوچ طلبہ نے جس مستقل مزاجی سے احتجاجی تحریک جاری رکھی اس سے تمام طلبہ کو ہمت اور اعتماد ملا ہے۔ مگر کیا اس احتجاجی تحریک کو اس انداز سے کامیاب بنایا جا سکتا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں ایسا قطعاً ممکن نہیں بلکہ اس طرح الٹا جگ ہنسائی ہی ہوگی۔ کوئی انتہائی سادہ لوح آدمی بھی یہی بات کرے گا کہ مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کونسلوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو اپنی قیادتوں کے گریبان پکڑ کر ان سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ کیا ہم واقعی اپنے مسئلہ کے حل کیلئے جدوجہ کر رہے ہیں یا محض ”سیاسی شناخت“ کیلئے میلوں کا سفر کر رہے ہیں! فوراً تمام طلبہ کو متحد ہو کر جدوجہد کو آگے بڑھانا ہوگا۔

آج سرمایہ دارانہ نظام اپنے بدترین بحران کا شکار ہے اور پوری دنیا کی ریاستیں اس بحران کا سارا بوجھ محنت کش طبقے پر ڈال رہی ہیں۔ اسی کے نتیجے میں تعلیم، علاج، بجلی، گیس، اشیائے خردونوش الغرض سب کچھ عام آدمی سے چھینا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ مستقبل میں مزید شدت اختیار کرے گا۔ یہاں کا حکمران طبقہ کسی بھی صورت طلبہ کے مسائل کو حل نہیں کرے گا بلکہ انہیں مزید بڑھائے گا۔ آج کے دور میں یہ سوچنا کہ ہماری بات سنی جائے گی اور دو تین میڈیا چینلوں پر خبر آ جانے یا دو تین منسٹروں یا وکیلوں کے ساتھ رابطہ ہونے سے مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہو جائے گا، انتہائی احمقانہ اور سیاسی جہالت سے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ عین ممکن ہے کہ طلبہ کو کسی نوٹس کے ذریعے دھوکہ دیا جائے، مگر ہم مطلع کریں گے کہ طلبہ اس دھوکے میں بالکل نہ آئیں بلکہ مستقل حل کیلئے جدوجہد کو طلبہ اتحاد کی بنیاد پر منظم کریں۔ آج پوری دنیا محنت کش طبقہ اس جبر کے خلاف احتجاجی تحریکوں میں ہے۔ پاکستان میں بھی یہی ماحول موجود ہے۔ اگر صرف طلبہ کو ہی دیکھا جائے تو اس وقت بولان میڈیکل کالج سے لے کر ڈاو میڈیکل کالج تک ہر جگہ طلبہ احتجاجوں کا رستہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ایسے ماحول میں مشترکہ جدوجہد کی بجائے الگ الگ اور بس اپنا کام نکلوانے کی پالیسی انتہائی تباہ کن ثابت ہوگی اور تمام جرات، عزم اور مستقل مزاجی کے باوجود نتیجہ الٹا منفی میں نکلے گا۔ ایسے صرف انتظامیہ ہی طاقتور ہوگی اور طلبہ میں مایوسی پھیلے گی۔

ساتھیو! طلبہ اتحاد کی بنیاد پر جدوجہد کو تیز کرو!
طلبہ اتحاد زندہ باد!
ایک کا دکھ، سب کا دکھ!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.