|رپورٹ: پروگریسیو یوتھ الائنس کشمیر|
15اگست 2018ء کو پروگریسیو یوتھ الائنس کے زیراہتمام راولاکوٹ پرل انٹرنیشنل ہوٹل کے ہال میں طلبہ یونین بحالی کانفرنس کا انقعاد کیا گیا جس میں پورے پاکستان اور کشمیر کے مختلف تعلیمی اداروں سے طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
کانفرنس کے باقاعدہ آغاز سے پہلے طلبہ نے انقلابی شاعری اور گیت سنائے۔ اس کے بعد کانفرنس کا باقاعدہ آغاز کیا گیاـ سٹیج سیکٹری کے فرائض قمرفاروق نے ادا کیے۔
کانفرنس کے پہلے سپیکر عبید زوالفقار نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے مختلف تعلیمی اداروں سے آئے ہوئے طلبہ کو خوش آمدید کہا اور اس کانفرنس کو کروانے کا مقصد سب کے سامنے رکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ طلبہ یونین بحال نہ ہونے کی وجہ سے آئے روز فیسوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور تعلیم کو محض کاروبار بنا دیا گیا ہےـ طلبہ سے بھاری فیسیں لینے کے باوجود انہیں بنیادی سہولیات سے محروم رکھا جاتا ہےـ طلبہ یونین پر پابندی اسی لیے لگائی گئی تاکہ طلبہ اپنے مسائل کے حل کے لیے منظم ہو کر جدو جہد نہ کر سکیںـ لیکن آج وقت کی اہم ضرورت ہے کے طلبہ کے تمام مسائل کے حل لیے لڑا جائے اور اس کے لیے طلبہ یونین کی بحالی ضروری ہے۔ جب تک طلبہ یونین بحال نہیں ہوگی طلبہ کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اسی لیے پروگریسو یوتھ الائنس پورے پاکستان میں طلبہ کو منظم کر رہی ہے اور انہیں شعوری طور پر ایجوکیٹ کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشلزم کے سائنسی نظریات بھی طلبہ تک پہنچا رہی ہے جو کے سماج میں دیگر مسائل پر گہری سمجھ دیتے ہیں اور اس کانفرنس کے ذریعے طلبہ یونین بحالی کے کمپئین کے آغاز کیا جا چکا ہے۔
اس کے بعد بلوچستان یونیورسٹی سے خالدمندوخیل نے طلبہ کے مسائل اور ان کے حل پر بات کی، ایمرسن کالج ملتان سے عمار اور لاہور سے رائے اسد نے طلبہ یونین کے ماضی کے بارے میں اور آج یونین کی ضرورت پر بات کی، پنجاب یونیورسٹی سے مشعل وائیں نے تعلیمی اداروں میں طالبات کی حراسگی کے واقعات اور دیگر مسائل پر بات کی، سندھ یونیورسٹی سے علی برکت، کراچی سے عادل راو، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے عرفان منصور، پونچھ یونیورسٹی سے محسن، گجرانوالہ سے سلمیٰ، کوئٹہ لاء کالج سے مہمند خان اور اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے عمر ریاض نے طلبہ کو درپیش مسائل اور انکے حل کیلئے طلبہ یونین کی اہمیت کے حوالے سے تفصیلا بات کی۔ انہوں نے کہا کہ طلبہ یونین پر ضیاء آمریت میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پابندی لگائی گئی۔ چونکہ طلبہ نا صرف اپنے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرتے تھے بلکہ ملکی سیاست میں بھی اہم کردار ادا کرتے تھے اس لیے حکمران طبقات نے عام طلبہ کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے اور بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی لوٹ مار جاری رکھنے کیلئے طلبہ یونین پر پابندی لگا دی۔ جہاں ایک طرف عام طلبہ کے سیاست کرنے پر زبردستی پابندی لگائی گئی وہیں دوسری طرف اپنی پالتو تنظیموں جیسے جمعیت کو تمام تعلیمی اداروں میں پروان چڑھانے کیلئے مکمل حمایت کی گئی اور اسلحہ کلچر اور غنڈہ گردی کو فروغ دیا گیاـ اس کا مقصد طلبہ سیاست کو بدنام کرنا تھا تا کہ طلبہ کی جانب سے حکمران طبقے کو کسی بھی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اس کے بعد وحید عارف نے پروگریسو یوتھ الائنس کشمیر کی انتظامی کمیٹی کا اعلان کیا اور اس میں شامل نوجوانوں کے نام لے کر انہیں سٹیج پر بلایا۔ اس انتظامی کمیٹی میں عبید ذوالفقار، ایاز خان، آمنہ فاروق، صعیب خنیف، قمر فاروق اور ارباز گلشن شامل ہیںـ
انتظامی کمیٹی کے اعلان کے بعد ارباز گلشن نے ہال میں موجود تمام طلبہ اور نوجوانوں سے کانفرنس کے انعقاد پر ہونے والے خرچ کو پورا کرنے کیلئے چندہ اپیل کی۔
اس کے بعد بنگلہ دیش میں جاری طلبہ تحریک کے حق میں ایک قرارداد پیش کی گئی جسے اکثریت رائے سے منظور کیا گیا۔
آخر میں پروگریسو یوتھ الانس کے مرکزی آرگنائزر زین العابدین نے تمام تر بحث کو سمیٹتے ہوئے تفصیل سے موجودہ حالات پر روشنی ڈالی اور موجودہ حالات میں طلبہ یونین کی اہمیت پر بات کی۔ انکا کہنا تھا کہ آج پوری دنیا میں معاشی بحران کی وجہ سے طلبہ اور محنت کش سڑکوں پر نکل کر اپنے جائز مطالبات منوا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں نوجوانوں کی حالیہ تحریک اسکی واضح مثال ہے۔ اسی طرح اس بحران کے اثرات پاکستان پر بھی شدید طریقے سے پڑ رہے ہیں اور اس تمام تر بحران کا بوجھ محنت کشوں پر ڈلنے کی وجہ سے محنت کشوں اور طلبہ میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ طلبہ بھاری فیسیں ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے تعلیم ترک کرنے پر مجبور ہیں، منڈی میں ڈگریوں کی تو بہتات ہے مگر نوکریاں ندارد۔جبکہ دوسری جانب حکمرانوں کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں طلبہ صرف منظم ہو کر ایک ملک گیر جدوجہد کی صورت میں ہی اپنے جائز حقوق جن میں فیسوں کا خاتمہ (مفت تعلیم) اور دیگر شامل ہیں منوا سکتے ہیں۔ اسی لیے آج طلبہ یونین کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ ہمیں طلبہ یونین بحالی کی اس کمپئین کو زیادہ سے زیادہ طلبہ تک لے کر جانا ہوگا اور ہم پر عزم ہیں کہ اگر ہم اس پیغام کو طلبہ کی اکثریت تک لے جانے میں کامیاب ہو گئے تو یقینا ملک گیر طلبہ تحریک کی صورت میں نا صرف طلبہ یونین بحال کرائی جا سکتی ہے بلکہ اس ملک میں محنت کشوں کے ساتھ طلبہ کا اتحاد بناتے ہوئے 1968-69ء کی ؑعظیم الشان تحریک کو بلند پیمانے پر دہرا کریہاں ایک سوشلسٹ انقلاب بھی کیا جاسکتا ہے۔ وہی ایک حقیقی تبدیلی ہو گی جو پیسے والے حکمرانوں کی جانب سے نہیں بلکہ عام محنت کشوں اور انکے بچوں کی جانب سے آئے گی۔
کانفرنس کے اختتام کے بعد طلبہ یونین بحالی، فیسوں کے خاتمے اور بے روزگاری کے خاتمے کے خلاف ایک ریلی نکالی گئی۔ اس ریلی نوجوانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور طلبہ یونین بحالی اور مفت تعلیم کے حق میں اور مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔
ریلی کے اختتام پر پروگریسو یوتھ الائنس کشمیر کے آرگنائزر عبید ذوالفقار نے ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے اس جدوجہد کو کشمیر سمیت پورے ملک میں تیزی سے پھیلانے کا اعلان کیا۔
Pingback: Progressive Youth Alliance – وڈیو: طلبہ یونین بحالی کانفرنس، ریلی اور مارکسی سکول، گرما 2018 کی جھلکیاں