|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کشمیر|
کچھ روز قبل باغ کے نواحی گاؤں کی رہنے والی طالبہ جو باغ کے کالج میں زیرِ تعلیم تھی جسے باغ پولیس کے ایک ملازم کی طرف سے جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا۔ کئی ماہ تک پولیس اہلکار کی طرف سے طالبہ کو بلیک میل بھی کیا جانے لگا اور طالبہ سے اس کی دیگر کالج کی طالبات کے فون نمبرز اور انہیں بھی ہراس کرنے کی کوششیں کرنے لگا۔طالبہ نے تنگ آ کر خود سوزی کی کوشش کی جس سے اس کی باقی دوستوں نے اسے روک دیا بعد ازاں طالبہ نے تھانے میں رپورٹ کی جسے شروع میں درج نہیں کیا گیا اور معاملہ معافی تلافی کر کے ختم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن دیگر عام لوگوں کو جب معلوم ہوا تو ان کے دباؤ کی وجہ سے پولیس اہلکار کے خلاف رپورٹ درج کی گئی اور ملزم کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس حوالے سے عوامی حلقوں میں شدید ردعمل سامنے آیا اور اس کیس کی انکوائری کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی۔ اس کیس کے علاوہ باغ میں دو اور ہراسمنٹ کیس سامنے آئے جن میں سے ایک اور کیس میں بھی ایک اور پولیس ملازم ملوث پایا گیا جو غیر قانونی طریقے سے گرلز ہاسٹل چلاتا رہا ہے۔
تینوں ہراسمنٹ کیسز کو لے کر باغ زمان چوک میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا مظاہرین نے عورت مخالف ہر دستور نہ منظور نہ منظور، کمتر ہو نہ حاوی ہو عورت کا حق مساوی ہو اور اب ہمارا ایک ہی کام،انتقام انتقام جیسے فلک شگاف نعرے بلند کیے۔ مظاہرین نے خواتین حقوق کے حق میں اور طالبہ ہراسمنٹ کیس کے حوالے سے مطالبات پر مبنی پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔ احتجاجی پروگرام میں جنرل سیکرٹری کے فرائض پروگریسو یوتھ الائنس کی رہنماء کامریڈ امبرین نور نے کیا۔ مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ جے آئی ٹی میں شامل لوکل باغ کے ممبران کو فارغ کیا جائے۔جنسی ہراسانی کے تینوں کیسوں کے لیے بیرونی اضلاع کے آفیسران پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے۔
اس کیس سے جڑے تمام چہروں کو بے نقاب کیا جائے کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس کالے دھن میں پورا گینگ اور گروہ شامل ہے۔مقررین نے کہا کہ انتظامیہ مثبت طریقے سے تفتیشی عمل کو آگے بڑھائے۔اگرکسی جانبداری یا کیس کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی تو چوک چوراہوں میں مزمت کریں گے۔کیس کو روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل کیا جائے اور جملہ کاروائی پبلک کی جائے۔
احتجاجی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے طالبات نے کہا کہ جنسی ہراسانی کا یہ کیس نہ تو پہلا کیس ہے اور نہ ہی آخری کیس ہے ایسے کئی کیسز ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ایک دو کیس رپورٹ ہوتے ہیں۔باقی کیسز رپورٹ نہیں ہوتے کیونکہ ہم لڑکیوں کی تربیت اس طرح کی جاتی ہے کہ ہر استحصال کو سہنہ ہے لیکن بولنا نہیں کیونکہ عزت کا مسئلہ ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ خا موش رہو تاکہ معا شرے میں عزت اور وقار قائم رہے۔ حالانکہ عزت اور وقار ڈر خوف کو ختم کر کے ہر طرح کے استحصال کے خلاف آواز بلند کرنے میں ہے۔
ہم مطالبہ کرتی ہیں اپنے تمام بھائیوں اور والدین سے کہ خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیں ہمیں اپنے حق کے لیے لڑنے کی اجازت دیں۔ہم نے اب اپنے حقوق کے لیے لڑنا ہے اور باغیرت اور با ضمیر لوگوں سے ہمیں توقع ہے کہ وہ ہمارے ساتھ کھڑے بھی ہوں گے اور ہماری رہنمائی بھی کریں گے۔
احتجاج کرنے والوں کے مطالبات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔متاثرہ لڑکی کے ساتھ ہونے والے جنسی تشدد و ہراسگی کے تمام کرداروں کے خلاف کاروائی کی جائے۔
2۔متاثرہ لڑکی نے تھانہ باغ میں درخواست دی۔جن لوگوں نے تھانے میں لڑکی کو پریشرائز کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پورا گینگ ہے اور اس کے مختلف کردار ہیں۔ان تمام کرداروں کو سامنے لایا جائے۔
3۔ گرلز ہاسٹل پولیس اہلکار کیس کے دیگر کرداروں کو بھی شامل تفتیش کیا جائے۔
4۔آج کا احتجاجی مظاہرہ خواتین، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنوں، سول سوسائٹی پر مشتمل ہے۔ آئی جی آزاد کشمیر اور وزیراعظم آزاد کشمیر تفتیش کو غیر جانبدار کرنے کے احکامات جاری کریں۔
5۔اگر اس کیس میں شامل سہولت کاروں کو گرفتار نہیں کیا جاتا تو تفتیش کو جانبدار سمجھا جائے گا۔
6۔ روزانہ کی بنیاد پر کیس ٹرائل کرنے، جملہ کاروائی کا پبلک کرنے اور 90 دن کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
7۔ہم تینوں ہراسانی واقعات کی مزمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ تینوں کیسز کی تفتیش کے لیے دوسرے اضلاع سے ممبران لیکر جے آئی ٹی قائم کی جائے۔
8۔طالبہ ہراسمنٹ کیس کے حوالے سے قائم جے آئی ٹی سے لوکل انتظامیہ اور پولیس اہلکاروں کو فارغ کیا جائے۔اور انھوں نے جو بھی تفتیش کی ہے وہ جانبدارانہ ہے دوبارہ کی جائے۔
9۔تمام تفتیش سے باغ انتظامیہ کو غیر موثر رکھا جائے۔
آخر میں احتجاج کے شرکاء نے مشاورت کے ذریعے ایک 25 رکنی کمیٹی بنائی جو ان کیسز کے حوالے سے ہونے والے اگلے اقدامات کو آرگنائز کرے گی۔
پروگریسو یوتھ الائنس طالبات کے ان مطالبات کی بھرپور حمایت کرتاہے اور طالبات کی جرات کو سلام پیش کرتاہے۔ہر اسانی کا مسئلہ صرف کشمیر یا کسی ایک علاقے میں نہیں ہے بلکہ پورے ملک میں طلبہ کو ہراسمنٹ اور اسکے ساتھ کئی اور مسائل کا سامنا ہے۔ چونکہ یہ مسائل سب کے سانجھے ہیں اسلیے ان مسائل کا حل بھی ایک اجتمائی لڑائی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ طلبہ کو ان سب مسائل کے خلاف ایک ملک گیر مہم چلانا ہو گی تاکہ ان مسائل کو مستقل طور پر حل کیا جاسکے۔
ایک کا دکھ، سب کا دکھ!
طلبہ اتحاد زندہ باد!