|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کشمیر|
کشمیر باغ کالج کی ایک طالبہ کی طرف سے کچھ روز قبل جنسی ہراسانی اور بلیک میلنگ کے مسئلے پہ ایف آئی درج کروائی گئی ایف آئی آر پولیس اہلکار عبدالقدیر نامی شخص پر کی گئی۔ جنسی ہراسانی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ پچھلے عرصے سے اس قسم کے واقعات میں تیزی آتی جا رہی ہے جو کہ واضح طور پر اس نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے متاثرہ طالبہ کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکار اس کو بلیک میل کرتا رہا اور اس کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا رہا اور مزید لڑکیاں لانے کا مطالبہ کرنے لگا جس پر متاثرہ لڑکی مجبور ہو کہ خود سوزی کی کوششیں کرنے لگی مگر اس کی دوستوں نے اسے ایسا نہ کرنے دیا اور پولیس اہلکار کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کا مشورہ دیا تو اس نے پولیس اہلکار سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے ایف آئی آر تھانہ باغ میں درج کروائی۔
معاملہ جب میڈیا تک پہنچا اور عوامی حلقوں میں سخت رد عمل ہوا تو پولیس اہلکار کو گرفتار کرنے کا مطالبہ رکھا گیا اس سارے معاملے پر متاثرہ طالبہ کے والد کی طرف سے ایک بیان آیا جس میں اس نے کہا کہ پولیس اہلکار اچھا آدمی ہے اور طالبہ پہ ذہنی دباؤ ڈالا گیا جس کی وجہ سے اس نے ایف آئی آر درج کروائی مزید لڑکی کے والد کا کہنا تھا کہ وہ ایف آئی آر واپس لیں گے اور کاروائی نہیں کروائیں گے۔اس بیان سے عوامی حلقوں میں شدید ردعمل سامنے آیا درحقیقت طالبہ کے والد سے زبردستی یہ بیان دلوایا گیا تھا مزید براں عوام کا اور طلبا و طالبات کا رد عمل دیکھتے ہوئے پولیس اہلکار کو معطل کر دیا گیا۔معطلی کے بعد پولیس اہلکار نے بھاگنے کی کوشش کی اور کوہالہ سے اس کو گرفتار کر لیا گیا۔ بعد ازاں متاثرہ طالبہ کے والد نے دوبارہ میڈیا کو بیان دیا جس میں انھوں نے کہا کہ اس کیس کے حوالے سے مجھ پر پولیس اہلکاروں اور بااثر افراد کی طرف سے دباؤ ڈالا گیا کہ آپ نے پولیس اہلکار کے خلاف بیان نہیں دینا اور اس بات کو یہیں ختم کر دینا ہے۔ ہم اس کیس کو ختم نہیں کریں گے اور اس کیس کے حل کے لیے اپنی طرف سے حق اور سچ پہ قائم رہیں گے اور دوبارہ کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے۔
باغ کے تعلیمی اداروں کے منتظمین جن کو علم نہیں تھا کہ طالبہ ویمن یونیورسٹی کی ہے یا کسی کالج کی۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے تردیدی بیان آتے رہے کہ طالبہ یونیورسٹی کی نہیں ہے حالانکہ یونیورسٹی کے اساتذہ کی طرف سے اس کیس کی مذمت ہونی چاہیے تھی۔کیونکہ یونیورسٹی کی کئی طالبات ہیں جو ان درندوں کے ہاتھوں بلیک میلنگ اور ہراسمنٹ کا سامنا کر رہی ہیں۔لیکن باغ ویمن یونیورسٹی ہو یا خواتین کا کوئی کالج ہو کہیں پہ اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی موجود نہیں ہے جو ان تمام تر واقعات کے خلاف ردعمل دے۔باغ کے اندر تواتر سے جنسی ہراسگی کے واقعات اور پولیس اہلکاروں کی جانب سے کالج اور یونیورسٹی کی طالبات کو بلیک میل کرنا اور جنسی زیادتی کرنا معمول بن چکا ہے۔
سوشل میڈیا پہ اس کیس کو لے کہ عوام کے اندر بہت غم وغصہ پایا جا رہا ہے اور لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات کے پیچھے با اثر طبقہ موجود ہے جو لڑکیوں کو اہم سیاسی شخصیات کے پاس سپلائی کرتا ہے۔ آزاد کشمیر کے نئے وزیراعظم نے اس واقعے کا نوٹس لیا ہے اور کہا ہے کہ مجرموں کو جلد از جلد کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا اور ایسے عناصر کا خاتمہ کیا جائے گا۔جو وقتی طور پر ردعمل کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کیا گیا ہے دراصل تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کے نہ ہونے کی وجہ سے جہاں فیسوں میں بے تخاشہ آضافہ کیا جا رہا وہاں پہ یونین کی غیر موجودگی کی وجہ سے اس قسم کے دیگر واقعات کے اندر خود تعلیمی اداروں کے اساتذہ بھی شامل ہیں جن سے کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہے۔
اس طرح کے واقعات کو کنٹرول کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام تعلیمی اداروں میں نا صرف اینٹی ہراسمنٹ کمیٹییز کی تشکیل کی جائے بلکہ ملک بھر کے طلبہ کو طلبہ یونین کی بحالی کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ باغ کے اندر اس معاملے کو لے کے نوجوانوں نے ایک اجلاس کیا جس میں مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ سمیت طلبہ تنظیموں کے کارکنان بھی موجود تھے۔وہیں پہ پروگریسویوتھ الائنس کے ممبران نے بھی اجلاس میں شرکت کی اور کہا کہ اگر ان معاملات کو ایسے ہی لیا جاتا رہا تو ان کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔ مزید یہ کہ اگر اس واقعے کا رخ موڑنے کی کوشش کی گئی یا پولیس اہلکار کی ناجائز حمایت کی گئی تو سخت ردعمل ہو گا اور ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔پروگریسو یوتھ الائنس پہلے ہی پورے پاکستان میں اینٹی ہراسمنٹ موومنٹ کا آغاز کر چکاہے اور نہ صرف اس قسم کے واقعات کے خاتمے بلکہ ان مسائل کی بنیاد اس ظالم سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے تک جدوجہد جاری رکھے گا۔