|تحریر: مرکزی انفارمیشن سیکرٹری|
5اگست کو مودی سرکار کے جابرانہ فیصلے کے بعد ایک بار پھر مسئلہ کشمیر نے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی اکائی بنے ہوئے2 ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس سارے عرصے میں مسلسل کرفیو کے ذریعے وادی میں موجود لاکھوں عوام کی زندگیوں کو جہنم بنا دیا گیا ہے۔ میڈیا پر مکمل پابندی کے باوجود کچھ خبروں کے مطابق نظام زندگی مکمل مفلوج ہے اور ادویات اور اشیائے خوردونوش کی بھی شدید قلت ہے۔ بھارتی ریاست جب بھی کرفیو کو تھوڑا نرم کرتی ہے وہاں کی عام عوام اس آمرانہ فیصلے کے خلاف باہر نکل آتے ہیں اور آزادی کے فلک شگاف نعرے بلند کرتے ہیں۔ کچھ رپورٹس کے مطابق یہ بتایا جاتا ہے کہ کشمیر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ جب بھی کرفیو ہٹے گا تو ہڑتال ہوگی۔ لوگ ماضی کے تجربات سے سیکھ چکے ہیں اور خودرو انداز میں ہڑتال کی تیاری کیے بیٹھے ہیں۔ کرفیو ہٹنے پر ایک خوفناک حد تک بڑی تحریک کے امکانات موجود ہیں۔
پچھلے سارے عرصہ میں وادی میں اٹھنے والی تحریکوں کو پاکستانی حمایت کا لیبل لگا کر ننگے جبر کے ذریعے کچلنے کی کوششیں کی جاتی رہیں اور شہہ رگ اور اٹوٹ انگ کے نعروں کے پیچھے دونوں ملک کے حکمران طبقات اپنے سامراجی عزائم کو بڑھاوا دیتے رہے اور اس لڑائی کا ایندھن عام کشمیری بنتے چلے آرہے ہیں۔ لیکن اس فیصلے نے خطے کی صورتحال کی یکسر بدل کر رکھ دیا ہے اور اس بار تحریک میں نہ صرف وادی بلکہ جموں اور لداخ میں بھی اس فیصلے کے خلاف بے چینی اور غم و غصہ پایا جاتا ہے اور خاص کر ہندوستان کے اندر سے کشمیریوں کے حق میں بہت بڑے احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
ہندوستان کی سامراجی تقسیم کے ستر سال بعد بھی کشمیر کا مسئلہ ایک ناسور کی طرح آج بھی رس رہا ہے۔ایک طرف ہندوستانی ریاست کشمیریوں پر ظلم جاری رکھے ہوئے ہے اور دوسری طرف پاکستانی ریاست نام نہاد آزاد کشمیر میں پچھلے 72 سالوں سے یہاں کے مقامی حکمرانوں کے ذریعے لوٹ مار جاری رکھے ہوئے ہے۔ دونوں اطراف میں غربت اور محرومی کا بول بالا ہے۔ ایک طرف سرمایہ داروں کو بڑے پیمانے پہ ٹیکس کی چھوٹ دی جا رہی ہے تو دوسری طرف عوام سےسانس لینے کا حق بھی چھینا جا رہا ہے۔ نجکاری، مہنگی تعلیم، علاج کی عدم فراہمی، روزگار کا ناپید ہونا اور شدید خستہ حال انفراسٹرکچر نے عوام کی زندگیوں کو محال کیا ہوا ہے۔ پاک و ہند کی اکثریتی عوام انہی مسائل سے دوچار ہے، جبکہ دونوں اطراف کے حکمران عیاشیوں سے زندگی بسر کر رہے ہیں جو بخار اور سر درد کا علاج کروانے یورپ کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے دنیا کی جدید درسگاہوں میں بھیج رہے ہیں جبکہ اکثریتی عوام کے پاس دو وقت کی روٹی میسر نہیں دراصل اس نطام کا خاصہ ہی یہی ہے۔
مودی کے فیصلے کے بعد پاکستانی ریاست اور حکمران طبقات کا خصی پن کھل کر عیاں ہوگیا ہے اور ستر سال سے ہندوستان کے دانت کھٹے کر دینے کے بلند وبانگ دعووں کے برعکس پاکستانی ریاست کشمیر کے مسئلے پر عملی طور پر کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں جس پر اسے اپنے ہی پالے ہوئے دائیں بازو اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے بھی شدید تنقید کا سامنا ہے اور لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کیا اسی وقت کے لیے ہی اتنی بڑی فوج نہیں بنائی گئی تھی۔ کشمیر کے مسئلے پر ریلیاں نکالنے اور آدھا گھنٹہ کھڑے رہنے کے سوا پاکستانی ریاست کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے۔اسی طرح عالمی سطح پر اقوام متحدہ، یورپی یونین اور اسلامی ممالک کی عالمی تنظیم اور دیگر سامراجی ریاستوں اور اداروں کی خاموشی واضح طور پر اس فیصلے کی پشت پناہی کے علاوہ اور کچھ نہیں اور اگر یہ سامراجی ادارے کچھ بول بھی لیں تو کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے، نہ ہی یہ سامراجی ادارے آج تک کسی بھی مظلوم قومیت کو آزادی دلا سکے ہیں۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں بھی ایک لمبے عرصے بعد سیاسی ہلچل کا آغاز ہوا اور کشمیر کی آزادی اور قبضے کے خلاف پیپلز نیشنل الائنس(PNA) کی صورت میں مختلف قوم پرست اور ترقی پسند تنظیموں کا الائنس بنایا گیا مگر تاحال یہ قوم پرست قیادتیں کوئی واضح موقف اور پروگرام دینے سے قاصر ہیں اور بس احتجاج کے ذریعے تحریک کو تھکانے کا باعث بن رہے ہیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس یہ سمجھتا ہے کہ جہاں کشمیر کی آزادی کی لڑائی کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کو اپنے زور بازو پر لڑنی ہو گی وہیں بالخصوص پاکستان اور ہندوستان میں موجود محنت کشوں اور نوجوانوں کی حمایت اور بالعموم پوری دنیا کے مخنت کشوں کی حمایت کے بغیر بھی ان سامراجی ریاستوں سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔ کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کی حقیقی آزادی کیلئے کشمیر میں موجود تمام سیکٹرز کے محنت کشوں، طلبہ، نوجوانوں اور عام عوام کو متحرک کرتے ہوئے ایک عام ہڑتال کی طرف بڑھنا ہوگا تاکہ عام ہڑتال کے ذریعے محنت کشوں اور عوام کو اس بات کا یقین دلایا جا سکے کہ اس سماج کو چلانے کی طاقت عوام کے پاس ہے۔جب تک پاکستان اور ہندوستان کی سرمایہ دارانہ ریاستیں موجود ہیں کشمیر کی حقیقی آزادی ممکن نہیں۔ کشمیر کی آزادی کے لیے یہاں سے سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنا ہوگا جو کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس کے لیے تحریک کو ایک سوشلسٹ پروگرام درکار ہے اور یہی آگے بڑھنے کا واحد رستہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کرتے ہوئے قوم پرستی کے فرسودہ نظریات کا طوق اتار پھینک کر ایک طبقاتی پروگرام پر نوجوانوں اور عام عوام کو منظم کیا جائے۔
کشمیری عوام کی انقلابی جدوجہدِ آزادی زندہ باد!
سامراجیت مردہ باد!
ایک عام ہڑتال کی جانب بڑھو!