سرمایہ داری بمقابلہ سوشلزم

|تحریر: رائے اسد|

اس وقت دنیا شدید بحران کی لپیٹ میں ہے۔ پہلے سے گہرے ہوتے معاشی بحران میں کرونا وباء نے عمل انگیز کا کام کیا ہے اور سرمایہ داری کے تضادات کو سطح پر ظاہر کر دیا ہے۔ پوری دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں چھوٹی بڑی تحریکیں موجود نہ ہوں۔ ایسے میں اس نظام کے خاتمے اور متبادل معاشی نظام کی بحث بھی دوبارہ زور پکڑ رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ آزاد منڈی کی معیشت کے مقابلے میں جو متبادل معاشی نظام موجود ہے وہ سوشلسٹ یعنی منصوبہ بند معیشت ہے۔ اس مضمون میں ہم دونوں کا مختصر تجزیہ کرنے کی کوشش کریں گے۔

سرمایہ دارانہ نظام یعنی آزاد منڈی کی معیشت ”کموڈیٹی پروڈکشن“ کا نظام ہے۔ کموڈیٹی (شے) سے مراد ایسی چیز ہے جو قابلِ استعمال ہو اور جسے بیچا جا سکے۔ سو آزاد منڈی کی معیشت میں ہر چیز اس لیے بنائی جاتی ہے تاکہ اسے بیچ کر منافع کمایا جا سکے۔ لہٰذا یہ نظام اپنے نقطہئ آغاز سے ہی منافع پر مبنی ہے۔ اس وقت ضرورتِ زندگی کی ہر چیز کثرت میں موجود ہے لیکن آبادی کی اکثریت بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے۔ دنیا میں ہر سال لاکھوں ٹن گندم دریاؤں میں بہا دی جاتی ہے اور دوسری طرف بہت سے ملکوں میں بے شمار لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں۔ بے شمار بنے بنائے گھر اور عمارتیں خالی پڑی ہیں اور دوسری طرف کروڑوں لوگ بے گھر ہیں کیونکہ ان کے پاس چھت خریدنے کے پیسے نہیں ہیں۔ یہ ہے آزاد منڈی کی معیشت جس میں صرف زر والے آزاد ہیں کہ وہ محنت کرنے والوں کا استحصال کر کے دولت کے انبار لگائیں۔

اس نظام میں تمام قوانین بھی سرمایہ داروں کی نجی ملکیت اور منافع کی حفاظت کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ اس نظام میں عدالتوں، مقننہ، فوج اور پولیس وغیرہ کا کام انہیں منافعوں کی حفاظت کرنا ہوتا ہے۔ بچہ بچہ ان عدالتوں اور پولیس وغیرہ کے کردار سے واقف ہے۔ سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو آپ کسی بھی جرم سے بری ہو سکتے ہیں اور اگر آپ غریب ہیں تو چھوٹے موٹے کیس میں بھی آپ کی ساری زندگی تھانے کچہریوں کے چکر کاٹتے گزر جائے گی۔ نا انصافی پر مبنی اس معاشی ڈھانچے کے تحفظ کے لیے بنائے گئے اداروں سے انصاف کی توقع کرنا ہی فضول ہے۔

آزاد منڈی کی معیشت میں تعلیم اور صحت کو بھی منافع بخش کاروبار بنا دیا گیا ہے۔ سرمایہ داروں کو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ تعلیمی ادارے یا ہسپتال بنائیں اور منافع کمائیں۔ آج تعلیم بیچی جا رہی ہے اور انتہائی منافع بخش کاروباروں میں سے ایک ہے۔ منڈی کی نفسیات اور سماجی ضروریات کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے کا مقصد بھی علم کے بجائے نوکری کا حصول بن گیا ہے۔ اسی طرح اس نظام میں بیماریاں بھی بک رہی ہیں۔ ہر طرف نجی ہسپتالوں کا جال نظر آتا ہے جن میں لوٹ مار جاری ہے۔ یہ دونوں شعبے قومی تحویل میں ہونے چاہئیں اور انسانوں کو یہ سہولیات مفت میسر ہونی چاہئیں لیکن آزاد منڈی کی معیشت میں ایسا نہیں ہوتا۔ کرونا وباء جس پر تا دمِ تحریر مکمل طور پر قابو نہیں پایا جا سکا، میں بھی ہم نے دیکھا کہ منافعوں کو انسانی جانوں پر ترجیح دی گئی اور ابھی تک یہ خونی کھیل جاری ہے۔

آزاد منڈی کی معیشت میں سائنس بھی سرمایہ داروں کے کنٹرول میں ہوتی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں ہی طے کرتی ہیں کہ کس چیز پر تحقیق کرنی ہے اور کس پر نہیں۔ جیسے آج بیماریوں کے خاتمے اور دوسرے اہم مسائل سے زیادہ توجہ اس بات پر دی جا رہی ہے کہ رنگ گورا کیسے کرنا ہے۔ منافع کی ہوس میں تعصبات پر مبنی خوبصورتی کے معیارات معین کیے جاتے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے لیکن کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا جا رہا کیونکہ ماحول کی تباہی کی ذمہ دار سب سے زیادہ یہی منافع خور ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں۔ آزاد منڈی کی معیشت میں فن بھی منافع کی ہوس کی زد میں ہوتا ہے۔ فن کا مقصد انسان کی روحانی اور جمالیاتی تسکین سے زیادہ کمائی ہوتا ہے۔ فنکاروں کو ”ستاروں“ کا درجہ دے کر انہیں سماج سے کاٹ دیا جاتا ہے تاکہ ان کی شہرت کو استعمال کر کے سرمایہ داروں کی بنائی گئی اشیا مہنگے داموں بیچی جا سکیں۔ کھیلوں کا بھی یہی حال نظر آتا ہے۔

سو آزاد منڈی کی معیشت انسانی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ نجی ملکیت پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام نے انسانیت کو تباہی کے دہانے لا کھڑا کیا ہے اور اس وقت نوحِ انسان کا وجود خطرے میں ہے۔ مشہور فلسفی فریڈرک اینگلز نے کہا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب انسانیت کے پاس دو راستے ہوں گے، سوشلزم یا بربریت! آئیے ہم سوشلزم کی معیشت یعنی منصوبہ بند معیشت کے خد و خال کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ آزاد منڈی کی معیشت کے برعکس منصوبہ بند معیشت میں نجی ملکیت کا وجود نہیں ہوتا اور ذرائع پیداوار اجتماعی ملکیت میں ہوتے ہیں۔ پیداوار کا مقصد منافع کا حصول نہیں بلکہ لوگوں کی ضروریات پوری کرنا ہوتا ہے۔ چونکہ پیداوار کا مقصد ہی انسانوں کی ضروریات کو پورا کرنا ہے تو تمام وسائل انسانوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہی وہ نقطہئ آغاز ہے جہاں سے انسان منافع خوری کی ہوس پر مبنی آزاد منڈی کی معیشت سے آزاد ہو جاتا ہے۔ انسان کے انسان کے ہاتھوں استحصال کے ختم ہونے سے لالچ، حرص اور نا انصافی جیسی غلاظتیں بھی ختم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح لوگوں کی ضروریات پوری کرکے جرائم کا بھی خاتمہ کیا جاتا ہے۔

منصوبہ بند معیشت میں تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات پوری کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ہر سطح پر مفت تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔ نجی تعلیمی مافیا کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے تمام تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لیا جاتا ہے اور یہ ادارے طلبہ، اساتذہ اور ملازمین کے اجتماعی کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ ہر شہری کو مفت تعلیم اور روزگار فراہم کیا جاتا ہے لہٰذا تعلیم کا مقصد پیسے کمانے کی بجائے علم حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر سطح پر مفت علاج فراہم کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ نجی ہسپتالوں اور کمپنیوں کو قومی تحویل میں لیا جاتا ہے اور علاج کے کاروبار پر مکمل پابندی ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ بھی تمام شعبوں سے نجی ملکیت کی غلاظت کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور حقیقی معنوں میں ایک انسانی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کو منافع کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کی ترقی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح آرٹ اور کھیلوں وغیرہ کو بھی منافع کی دلدل سے آزاد کرایا جاتا ہے اور اس میدان میں بھی سب کو یکساں مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ جنسی ہراسانی، ریپ، قتل و غارت، بے روزگاری، چائلڈ لیبر اور ایسے بے شمار انسانی المیوں کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔

منصوبہ بند معیشت کا پہلا کامیاب تجربہ روس کے اندر 1917ء کے سوشلسٹ انقلاب میں ہوا تھا۔ روس اس وقت انتہائی پسماندہ ملک تھا جہاں محض دو، تین شہروں میں ہی کچھ صنعتیں تھیں اور ملک کے زیادہ تر حصے میں ذرائع نقل و حمل سے لے کر بجلی تک موجود نہیں تھی۔ منصوبہ بند معیشت کی بدولت ایک ایسا ملک دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن گیا۔ نا صرف یہ بلکہ خاص طور پر صحت اور تعلیم کے شعبوں نے بے مثال ترقی کی۔ موجودہ دور میں انسانیت کے پاس منصوبہ بند معیشت کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔ اب یا تو سماج میں موجود بے تحاشہ دولت، جدید ترین ٹیکنالوجی اور تکنیک کو منصوبہ بندی کے تحت استعمال کر کے اسی دنیا کو جنت بنایا جائے یا پھر وباؤں، بحرانوں، جنگوں اور خانہ جنگیوں کے نتیجے میں جہنم۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.