|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، حیدر آباد|
ناکارہ تعلیمی انفرااسٹرکچر کے سبب تعلیم عام لوگوں کیلئے خواب بنتی جارہی ہے اور کرونا وبا اور معاشی بحران کے سبب اکثریت گھرانے بے روزگاری کے باعث دو وقت کی روٹی بھی حاصل نہیں کر پا رہے ہیں۔ اسی وقت حکمران طبقہ اور اس کے محافظ ادارے محنت کش طبقے کو سہولیات دینا تو درکنار اپنی عیاشیوں کو برقرار رکھنے کی خاطر بحران کا سارا بوجھ محنت کش طبقے پر ڈال رہے ہیں۔ اسی کے پیش نظر تعلیمی اداروں کو دکانوں کی مانند استعمال کرتے ہوئے اپنی عیاشیوں کو برقرار رکھا جارہا ہے۔ جس کے لیے طرح طرح کے حربوں کا سہارا لیا جارہا ہے جیسے طلبہ کی فیسیوں میں اضافہ کرنا۔ جبکہ کرونا وباء کے دوران دفاعی بجٹ کو کم کرکے صحت اور تعلیمی بجٹ کو بہت بڑے پیمانے پر بڑھانے کی ضرورت تھی لیکن اس کے برعکس آئی ایم ایف کے دلال حکمرانوں نے آٹے میں نمک کے برابر اضافہ کرتے ہوئے تعلیمی بجٹ 108 بلین مقرر کیا۔ اس سے قبل بھی تعلیمی اداروں کو ہدایات جاری کی جا چکی ہیں کہ وہ اپنے اخراجات خود پورے کریں۔ اس کے نتیجے میں سارا خرچہ فیسوں میں اضافہ کر کے پورا کیا جارہا ہے۔ جو کہ واضح طور پر طلبہ دشمن اور تعلیم دشمن عمل ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں۔
انتظامیہ کی اس بدمعاشی کا اندازہ یہاں ایم فل اور ماسٹرز کی فیسوں میں اضافے سے لگایا جاسکتا ہے۔ سندھ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے بھی طلبہ کی فیسوں میں 80 فیصد سے زائد اضافہ کیا گیا ہے۔ جن شعبوں کی فیس 70000 روپے فی سمسٹر تھی، ان میں 90000 روپے اضافہ کرکے 160000 کر دیا گیا۔ تمام تر شعبہ جات میں فیس کم کرنے کی بجائے بڑھا دی گئی ہے۔ اس عمل کے خلاف ایم فل اسکالرز اور ماسٹرز کے طلبہ نے 28اگست کو حیدرآباد پریس کلب کے سامنے اور سندھ کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے ۔ لیکن انتظامیہ کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی۔ پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان نے بھی اس احتجاج میں شرکت کی۔ اسی سلسلے میں طلبہ نے 2 ستمبر کو سندھ یونیورسٹی جامشورو میں وائس چانسلر ہاؤس سے ایڈمیشن بلاک تک احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس بحیثیت طلبہ تنظیم اس احتجاج کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ اور طلبہ کو یہ باور کراتا ہے کہ پروگریسو یوتھ الائنس ہر محاذ پر ان کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔
ہم یہ سمجھتے ہے کہ طلبہ کی طاقت ان کے اتحاد اور اکٹھ میں ہے۔ آنے والے عرصے میں ملک کے دیگر تعلیمی اداروں میں بھی فیسوں میں اضافہ متوقع ہے اور دیگر مسائل بھی بڑھنے کی طرف جائیں گے۔ اس تمام جبر سے نجات طلبہ کی ایک ملک گیر منظم جدوجہد کی صورت میں ہی ہو سکتی ہے۔ اسی کے ذریعے نہ صرف ہم اپنے مفت تعلیم کے بنیادی حق کو حاصل کر سکتے ہیں بلکہ طلبہ کے بنیادی حقوق کے دفاع کے ادارے یعنی طلبہ یونین کو بھی بحال کروا کر طلبہ کو درپیش دیگر مسائل کا تدارک کر سکتے ہیں۔