|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|
جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے اور مشہور تعلیمی ادارے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں دن بدن بڑھتے ہوئے مسائل میں سے ایک اہم اور نازک ترین مسئلہ طالبات کی مرد اساتذہ کے ہاتھوں ہونے والی ہراسانی کے واقعات ہیں۔ یہ مسئلہ اس قدر تشویش ناک صورتحال اختیار کر چکا ہے کہ اس کی وجہ سے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی اکثر اخباروں کی شہ سرخیوں کا مرکز بنی رہتی ہے۔ ابھی حالیہ واقعات میں سے ایک واقعہ فارسٹری ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر واصف نعمان کی طرف سے ایک طالبہ کے ساتھ بلیک میلنگ اور اسے جسمانی طور پر ہراساں کیے جانے کا ہے۔ اس پروفیسر کو تحقیقات کے بعد الزام ثابت ہونے پر اپنے عہدے سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ اس کے علاوہ سرائیکی ڈیپارٹمنٹ میں ہونے والا واقعہ بھی ابھی تک سب کے ذہنوں میں نقش ہے، جس میں کلاس فیلوز اور پروفیسر نے مل کر ایک سٹوڈنٹ کو بلیک میلنگ اور زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اس طرح کے واقعات کی بڑی وجہ یونیورسٹی کے انتظام میں احتساب کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ایسی کالی بھیڑوں کو اکثر سزا نہیں ملتی۔ کیونکہ ہراسانی کے معاملے میں بنائی گئی کمیٹیوں میں شامل اساتذہ و انتظامیہ کے طاقتور لوگ، طالبات کی بجائے اپنے انہی ساتھی اساتذہ کو سپورٹ کرتے ہیں، جو ہراسانی جیسے مکروہ فعل میں ملوث ہوتے ہیں۔ یوں یہ صورتحال جوں کی توں رہ جاتی ہے اور اس کا کوئی حل نہیں نکل پاتا۔ طلبہ کے منتخب نمائندوں پر مبنی یونینز کی غیر موجودگی اور ایسی کمیٹیوں میں طلبہ کے نمائندگان کی عدم موجودگی کے سبب ان کے حقوق کا دفاع کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ طلبہ کی جانب سے مشترکہ مزاحمت نہ ہونے کے سبب ان واقعات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
دوسری جانب ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ لڑکیاں جب یونیورسٹی میں آتی ہیں تو ان میں سے زیادہ تر کا تعلق ایسے خاندانوں سے ہوتا ہے جہاں والدین کے لیے بچیوں کو یونیورسٹی میں بھیجنا مالی و سماجی اعتبار سے ایک بڑا قدم ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسے والدین کو اپنی تعلیمی کارکردگی سے مسلسل مطمئن رکھنا پڑتا ہے۔ نمبروں اور جی پی اے کے چکر میں طالبات جب مرد اساتذہ سے مدد لیتی ہیں تو اکثر وہ غلط لوگوں کے ہاتھوں شکار ہوجاتی ہیں۔ جہاں اساتذہ گائیڈ کرنے کے بہانے انھیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جب وہ ایسے کسی مسئلے کا شکار ہوتی ہیں تو اپنے والدین سے ڈسکس نہیں کر پاتیں اور پھر وہ اس دلدل میں مزید پھنستی چلی جاتی ہیں اور مزید بلیک میلنگ کا شکار ہوتی رہتی ہیں۔ اس طرح کے مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین غیر مشروط طور پر فی الفور بحال کی جائے تاکہ طلبہ کے منتخب نمائندوں کی انتظامیہ کی اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی میں موجودگی متاثرہ فریق کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائے۔ مزید برآں، ایسے بھیڑیوں کو سخت سے سخت سزا دینے کے لئے فوری طور پر قانون سازی کی جانی چاہیے تاکہ یونیورسٹی کے ماحول کو خواتین کے لیے محفوظ بنایا جاسکے کیوں کہ یہ ہماری مستقبل کی معمار ہیں اور تا کہ والدین اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹی بھیجنے سے نہ گھبرائیں۔ اس سلسلے میں خود طلبہ کو سب پہلے منظم انداز میں اس مسئلے کی وجوہات اور پھر اس کے حل کے لیے متحرک ہونا چاہیے، اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا ہی حقیقی سیاست ہے۔ طلباء و طالبات کو مل کر اپنے حالات کو بدلنے کے لیے آگے آنا ہوگا۔