حال ہی میں نیٹ فلیکس پر ریلیز ہونے والی مختصر انڈین سیریز ”دی ریلوے مین“ یقینی طور پر ثقافتی بیہودگی کے اس دور میں خوشگوار ہوا کا ایک جھونکا ہے۔ سیریز کا موضوع 1984ء میں بھوپال، انڈیا میں رونما ہونے والا ایک خوفناک صنعتی حادثہ ہے جس میں امریکی کیمیکل کمپنی یونین کاربائیڈ کے پلانٹ سے زہریلی گیس کے اخراج کے نتیجے میں دس ہزار سے زائد اموات ہوئی تھیں۔ سیریز کی کہانی انڈین ریلوے کے ان جانباز ورکرز کے حقیقی کردار پر مبنی ہے جنہوں نے حادثے کی رات حکومت اور ریلوے منسٹری کے احکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی جانوں پر کھیل کر بھوپال کے لوگوں کی مدد کی۔
سیریز میں جہاں ایک طرف ریل مزدوروں کے ہیر وازم کی انتہائی زبردست عکاسی کی گئی ہے کہ کس طرح یہ عام سے ورکرز ایک طرف غیر معمولی حالات میں ناقابل یقین جرات اور قربانی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہیں دوسری طرف یونین کاربائیڈ کمپنی کے امریکی مالکان و انتظامیہ اور انڈین گورنمنٹ و ریلوے منسٹری کی سفاکانہ بے حسی کو بھی خوب آشکار کیا گیا ہے۔
سیریز میں ”سسٹم کا حصہ بن کر سسٹم کو تبدیل کرنے“ کی بیہودہ مڈل کلاس نفسیات پر بھی زبردست چوٹ لگائی گئی ہے اور دکھایا گیا ہے کہ افسر شاہی کے عوام دشمن ادارے میں اگر کوئی افسر انفرادی حیثیت میں بہتر کردار کا مالک ہے تب بھی وہ کچھ نہیں کر سکتا اور آخر کار یا تو اسے ادارے کے مجموعی مزاج کے مطابق چلنا پڑے گا یا پھر وہ اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
اسی طرح سیریز میں ایک ڈکیت کا فرضی لیکن انتہائی دلچسپ کردار بھی موجود ہے جو ڈکیتی کے ارادے سے اس رات بھوپال ریلوے اسٹیشن آتا ہے لیکن غیر معمولی حالات اس کے اندر اچھائی اور برائی کے درمیان ایک زبردست کشمکش کو جنم دیتے ہیں جس میں بالآخر اچھائی فتح یاب ہوتی ہے۔
سیریز کے ڈائیریکٹر شیو راویل بلاشبہ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ اپنی ناتجربہ کاری کے باوجود انہوں نے انتہائی شاندار کام کیا ہے۔ اسی طرح اگرچہ سیریز کے کم و بیش تمام مرکزی کرداروں کی ایکٹنگ قابل ستائش ہے لیکن شائقین کی جانب سے مرحوم عرفان خان کے بیٹے بابل خان کو اُن کی شاندار اداکاری پر خاص طور پر سراہا گیا ہے۔