ملتان: ”دوسرے“ ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد

|رپورٹ: اسما شوکت، احسن افتخار|

7 جولائی 2019ء بروز اتوار، پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے دوسرے ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا (پہلا مارکسی سکول)۔ سکول میں 20 کے قریب نوجوان اور محنت کش شامل تھے۔ سکول کا آغاز شام 6 بجے ہوا۔ سکول مجموعی طور پر دو سیسنشز پر مشتمل تھا۔ پہلے سیشن کا عنوان ”عالمی اور پاکستان تناظر“ تھا اور دوسرے کا عنوان ”انقلاب فرانس“ تھا۔ پہلے سیشن کو چیئر کامریڈ شہزاد نے کیا جب کے اس عنوان پر تفصیلی بات کامریڈ اسماء نے کی۔

بات کے آغاز میں اسماء نے بتایا کے آج دنیا کہ ہر خطے، ہر علاقے میں دیوہیکل تبدیلیاں ہوتی نظر آرہی ہیں۔ دنیا کا کوئی کونا ایسا نہیں ہے جہاں ہمیں کوئی تحریک نظر نہ آئے۔ یہاں تک کہ سرمایہ داروں کے اپنے بڑے بڑے تجزیہ نگار بھی اب ایک نئے بحران کی باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوے اسماء نے بتایا کہ اس وقت دنیا میں عالمی سامراجی سرمایہ داری کے دو ستون ”امریکہ“ اور ”چین“ ہیں۔ چین کی صوتحال کا جائزہ لیا جائے تو پتہ لگتا ہے کہ چائنہ زائد پیداوار کے بحران کا شکار ہے۔ چین کی مارکیٹ میں اب اس زائد پیداوار کے بحران کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں ہے جسکی وجہ سے وہ نئی منڈیوں کی تلاش میں ون بیلٹ ون روڈ جیسے پراجیکٹ کے ذریعے اس بحران کو کم کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان کے اندر سی پیک بھی اسی پراجیکٹ کا حصہ ہے۔ اس وقت چین کا کل قرضہ جی ڈی پی کے 300 گنا ہوچکا ہے۔ ان حالات کی وجہ سے ہمیں چین کے اندر مختلف تحریکوں کا ابھار ہوتا نظر آتا ہے۔ اس کے بعد امریکہ کی ساری صورتحال پر بات کرتے ہوے اسماء نے کہا کہ اس وقت امریکہ کا کل قرضہ 22 کھرب ڈالر ہو چکا ہے۔ جس کی وجہ سے امریکہ میں معاشی اور سماجی گٹھن بڑھ رہی ہے۔ اسی وجہ سے وہاں لوگ احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی اعتراضات لگائے کہ پوری دنیا کا بوجھ امریکہ کے کندھوں پر ہے اور امریکہ بہت زیادہ نقصان کا شکار ہے۔ اسی سلسلے میں وہ انڈیا، کینیڈا اور میکسیکو پر ٹیرف لگاتا ہوا نظر آتا ہے۔ سب سے بڑی تجارتی جنگ ٹرمپ نے چین کے ساتھ شروع کر رکھی ہے۔ امریکہ – چین کی اس تجارتی جنگ کے اثرات تمام سرمایہ دار کمپنیوں پر ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے ان میں شدید قسم کی گراوٹ آنے والے دنوں میں آئے گی۔

اس کے بعد یورپ کے معاشی اور سیاسی حالات پر بات کرتے ہوئے اسماء نے بتایا کہ یورپ کے کئی ممالک میں کٹوتیوں کے خلاف تحریکیں بن رہی ہیں۔ یورپ کے تمام ممالک میں کوئی بھی سیاسی پارٹی ایسی موجود نہیں ہے جو ایسا پروگرام دے سکے جو یورپ کے بحران کا مستقل حل پیش کرے۔ ہمیں نظر آتا ہے کہ تمام تر پارٹیاں خواہ وہ دائیں بازو کی ہوں یا بائیں بازو کی، اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے اصلاحات کی بنیاد پر اپنے پروگرام کو متعین کرتی ہیں۔ اسی وجہ سے وقتی طور پر پزیرائی ملنے کے بعد جب اقتدار انکے ہاتھ لگتا ہے تو انہیں بھی دوسروں کی طرح عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنا پڑتا ہے، مہنگائی کرنی پڑتی ہے، نجکاری کرنی پڑتی ہے، تنخواہوں میں کٹوتیاں کرنی پڑتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں عوام میں انکی مقبولیت ختم ہو جاتی ہے۔ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹیوں سے لے کر یونان کی سائریزا پارٹی تک ہر جگہ ہمیں یہی ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔

اس کے بعد فرانس میں پیلی واسکٹ تحریک (Yellow Vest Movement) اور سودان اور الجیریا کی تحریکوں پر بھی تفصیلی بات کی۔ اسکے بعد پاکستان کی سیاسی، سماجی اور معاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ پوری دنیا کی صورتحال سے پاکستان بالکل بھی کٹاہوا نہیں ہے۔ پاکستان کے تناظر کو عالمی تناظر کے تسلسل میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اس بات کا پتا لگتا ہے کہ یہ ایک مصنوعی طریقہ سے بنائی ہوئی ریاست ہے جو کہ سامراجیوں کی ضرورت کے تحت وجود میں آئی۔ اسی لیے پاکستانی ریاست کی کوئی آزادانہ معیشت نہیں تھی کیوں کے یہاں کی بورژوازی اپنے آغازسے ہی سامراجیوں کی گود میں تھی۔

موجودہ تبدیلی حکومت کو دیکھا جائے تو اس میں کوئی بھی تبدیلی کا عنصر نظر نہیں آتا۔ اس کی پالیسیاں بھی وہی ہیں جو پہلے تمام حکمرانوں کی پالیسیاں رہی ہیں۔ قرضے کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والا معاہدہ پاکستانی تاریخ کا سخت ترین شرائط پر ہونے والا پہلا معاہدہ ہے۔ جسکی بنا پر پاکستان کے سرکاری اداروں کو بیچنے کی شرط سر فہرست ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بنائے جانے والے بجٹ پر بات کرتے ہوے اسماء نے بتایا کہ اس سال پیش ہونے والا بجٹ قاتلانہ بجٹ ہے۔ فوری طور پر اگر اس بجٹ کے خلاف کوئی بڑا رد عمل سامنے نہیں بھی آیا تو مستقبل میں اسکے اثرات کے تحت بڑی تحریکیں ہمیں دیکھنے میں آئیں گی۔ یہ تحریکیں کسی رائج الوقت سیاسی پارٹی کے زیر اہتمام نہیں ہونگی بلکہ انہیں مزدور، کسان اور طلبہ خود منظم کریں گے۔

اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے اسماء نے عوام اور محنت کشوں کے ماضی سے اسباق حاصل کرنے اور آنے والے دنوں میں مزدور تحریکوں کے شدت اختیار کرنے پربات کرتے ہوے کہا کہ آج یہ نظام اپنی مدت پوری کر چکا ہے۔ مستقبل میں بڑی تحریکیں پاکستان کی سیاست کو ہی بدل کر رکھ دیں گی۔

اس کے بعد سوالات کے سلسلہ کا آغاز ہوا۔ سوالات کی روشنی میں باقی مقررین نے بات کی جس میں وقاص سیال، فضیل اصغر اور راول خان شامل تھے۔

وقاص سیال نے یورپ پر تفصیل سے بات کرتے ہوئے بریگزٹ کی موجودہ صورتحال کا ذکر کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ جرمنی، اٹلی اور یونان کی سیاسی، سماجی اور معاشی صورتحال پر بات کی۔

راول خان نے موجودہ عہد پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بحران ہماری زندگیوں پر براہ راست اثر اندازہوتے ہیں۔ آج یہ نظام سماج کو آگے بڑھانے میں رکاوٹ بن رہا ہے اور اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ انقلاب کی ضرورت اور انقلابی پارٹی کی اہمیت پر تفصیلی بات کی۔

اس کے بعد اس سیشن کے آخری مقرر فضیل اصغر نے مشرق وسطیٰ پر بات کرتے ہوے ایران سعودی تنازعہ اور اسکے مشرق وسطیٰ کی سیاست پر اثرات اور حالیہ پیش رفتوں پر بات کی۔ اسکے ساتھ ساتھ ترقی کی معاشی، سیاسی اور سماجی صورتحال پر بھی تفصیلی بات کی۔ اسکے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاسی صورت حال پر بھی بات کی۔

آخر میں کامریڈ اسماء نے ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے بات کا اختتام کیا۔

دوسرے سیشن کو چیئر کامریڈ عبداللہ سیال نے کیا اور لیڈ آف کامریڈ احسن نے دی۔ احسن نے پہلے سیشن سے بات کو جوڑتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔ انہوں نے آغاز میں مختلف عہدوں میں ہونے والے انقلابات کے کردار پر بات رکھی۔ احسن نے فرانس کے انقلاب کی حاصلات بتاتے ہوئے کہا کہ وہ فرانس کا انقلاب ہی تھا جس نے بادشاہت، جاگیرداری اور کلیسا کے جبر کا خاتمہ کیا۔ ایک جمہوری نظام ریاست کا قیام کیا اور مذہب کو ریاست سے الگ کیا اور خاص طور پر جاگیر دارانہ طرز پیداوار کا خاتمہ کیا اور سرمایہ داری کے پھلنے پھولنے کا موجب بنا۔

اسکے بعدفرانس میں انقلاب سے پہلے کے سماجی حالات پر روشنی ڈالی جنہوں نے فرانس کی عوام کو مسلح ہونے پر مجبور کیا۔ کامریڈ نے واضح کیا کہ وہ فرانس کے سماجی و معاشی حالات ہی تھے جنہوں نے عوام کو سوچنے، سوال کرنے اور اپنے حق کی لڑائی کے لیے قدم بڑھانے پر مجبور کیا۔

اسکے بعد انکا کہنا تھا کہ عوام ہوں یا پھر سرمایہ دار (بالخصوص چھوٹے سرمایہ دار) دونوں ہی نظام سے تنگ تھے۔ لیکن دونوں کے مفادات، مسائل اور نظام سے تضادات مختلف تھے۔ اسکے بعد احسن نے فرانس کے دیہی علاقوں کی صورتحال بتائی جہاں کسانوں سے مختلف قسم کے بے تحاشہ ٹیکس وصول کیے جاتے تھے۔ جنہوں نے عام عوام کی زندگی جہنم سے بد تر بنادی تھی۔ پیداوار پہلے ہی بہت کم تھی اور جو ہوتی تھی وہ ٹیکسوں کی شکل میں نکل جاتی تھی۔ اسی طرح جب بادشاہ کی جانب سے جاگیرداروں پر بھی ٹیکسوں کے نفاذ کا آعلان ہوا تو حکمران طبقے کے اپنے اندر لڑائی شدت اختیار کر گئی۔ ھکمران طبقے کی آپسی لڑائی میں شدت، کسانوں پر ٹیکسوں کی بھرمار اور نوزائیدہ سرمایہ دار طبقے اور جاگیردار اشرافیہ (بشمول چرچ) کے مفادات کے ٹکراو کے تنیجے میں انقلاب فرانس نے جنم لیا۔ اسکے بعد احسن نے باسٹیل قلعے پر حملے سے آغاز کرتے ہوئے انقلاب میں پیش آنے والے دیگر واقعات (لڑائیاں) اور ان میں کسانوں اور مزدوروں کے کردار اور سرمایہ دار طبقے کے کردار کو واضح کیا۔

احسن کی لیڈ آف کے اختتام پر سوالات کاسلسلہ شروع ہوا۔ جس میں سکول کے شرکاء نے موضوع سے متعلق مختلف سوالات پوچھے۔ اس کے بعد دیگر ساتھیوں نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے انقلاب فرانس کے موضوع پر بات کی۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے کامریڈ فضیل اصغر نے سوالات کی روشنی میں بات کرتے ہوئے انقلاب کے بعد فرانس کے معاشی اور سیاسی سیٹ اپ کے خدوخال واضح کیے۔ اسکے بعد انہوں نے فرانس میں ہونے والی شعوری تبدیلیوں، انکی وجوہات اور ان میں اس وقت کے فلسفیوں، فنکاروں اور انقلابیوں کے کرادر پر بات کی۔ اسکے بعد فضیل نے ردانقلاب اور نیپولین کے ابھار پر تفصیلی بات کی۔

اسکے بعد دوسرے مقرر کامریڈ راول خان تھے۔ راول نے فرانس کے انقلاب میں بورژوازی اور عام عوام کے کردار پر بات کی۔ راول نے انقلاب فرانس اور سوشلسٹ انقلاب میں فرق واضح کیا۔

آخر میں احسن نے بات کو سمیٹے ہوئے انقلابات میں عوام کے کردار پر بات کی۔ انہوں نے واضح کیا کہ کسی بھی انقلاب کو آگے بڑھانے میں عوام کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ اس کے بعد احسن نے انقلاب میں عورتوں کے کردار پر اور قیادت کے کردار (کی اہمیت) پر بات کی۔ آخر میں انہوں نے انقلابی پارٹی کی اہمیت اور انقلاب فرانس سے ملنے والے اسباق سے سیکھتے ہوئے کامریڈز کی نظریاتی تربیت پر زور دیا، تاکہ مستقبل میں ہونے والی تحریکوں کی قیادت کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کو یقینی بنایا جاسکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.