ملتان: ”عالمی و پاکستان تناظر“ کے عنوان پر مارکسی سکول کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|

نیشنل مارکسی سکول سرما (2019) کی تیاری کے سلسلے میں ملتان میں پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے دوسرا ایریا مارکسی سکول منعقد کیا گیا۔ سکول ایک سیشن پر محیط تھا، جس کا عنوان ”عالمی و پاکستان تناظر“ تھا۔ سکول کو چیئر ذیشان خان نے کیا اور اس عنوان پر تفصیلی بات شہزاد نے کی۔

شہزاد نے بات کا آغاز عالمی منظرنامے کے اندر ہونے والی دیو ہیکل تبدیلیوں سے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ایکواڈور تا چلی، ایران تا لبنان، چلی تا ہانگ کانگ، گو دنیا کے ہر ایک کونے میں عوامی بغاوتیں نظر آرہی ہیں۔ 2008 کے عالمی معاشی بحران کے بعد ”طویل ترین“ ریکوری بھی درحقیقت سرمایہ داری کو کسی قدر استحکام نہیں دے سکی اور آج سرمایہ داری پہلے سے زیادہ سنگین بحران کے دہانے پر کھڑی ہے۔ عالمی معیشت شدید ترین قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہے، آزاد منڈی اور فری ٹریڈ کی باتیں کرنے والے سرمایہ دار ممالک آج تحفظاتی پالیسیاں لاگو کر رہے ہیں اور ریاست ڈائریکٹ منڈی کو کنٹرول کر رہی ہے۔ سرمایہ داری کے بحران کا اظہار تجارتی جنگ کی صورت میں ہورہا ہے، جو اس بحران کو مزید شدید کرتا جارہا ہے۔ شہزاد کا کہنا تھا کہ آج برطانیہ بریگزٹ کا مسئلہ سلجھانے سے قاصر نظر آرہا ہے۔ وہیں یورپی یونین کے دیگر ممالک کو بھی بجٹ خسارے اور جی ڈی پی میں مسلسل کمی کا سامنا ہے۔ شہزاد کا کہنا تھا آج امریکہ کے اندر سوشلزم کا اُبھار نظر آرہا ہے۔ اس ساری صورتحال نے پاکستان کی پسماندہ ریاست کو مزید بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔ آج پاکستان کے اندر استحکام کے امکانات بالکل ختم ہو چکے ہیں اور مزید نئی تحریکوں کیلئے سازگار مواقع ہیں۔

شہزاد کے بعد بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے شمس الرحمٰن کا کہنا تھا کہ سرمایہ داری کے بحران نے قومی مسئلہ کو ایک دفعہ پھر پوری شدت کے ساتھ اُبھار دیا ہے۔ دنیا کے دیگر خطوں کی طرح پاکستان کے اندر قومی سوال پوری شدت کے ساتھ موجود ہے جس پر وقتاً فوقتاً تحریکوں کا اُبھار بھی نظر آیا ہے۔ آنے والے عرصے میں اس سے زیادہ شدید تحریکوں کے ابھرنے کے امکانات موجود ہیں مگر سرمایہ دارنہ نظام کو اکھاڑے بغیر قومی آزادی کا تصور محال ہے۔

شمس کے بعد احسن نے بات کو مزید آگے بڑھایا کہ سرمایہ داری اس وقت زائد پیداوار کے بحران سے نبرد آزما ہے۔ یہی زائد پیداوار کا بحران ہے جو چین کو اپنی منڈی کو وسعت دینے کے لیے ہاتھ پیر مارنے پر مجبور کر رہا ہے۔ وہیں امریکہ کو چین کے اوپر تجارتی پابندیاں لگانا پڑ رہی ہیں۔ اس سارے عرصہ کے اندر امریکہ کا کردار بہت حد تک محدود ہوا ہے اور دیگر سامراجی قوتوں کو اپنے خطوں میں سر اٹھانے کے مواقع میسر آئے ہیں۔ احسن کا مزید کہنا تھا کہ آج برطانیہ میں بحران کا واضح اظہار نظر رہا ہے اور عوام کے اندر بے چینی پائی جارہی ہے، عوام ایک دفعہ پھر بائیں بازو کے نظریات کو اپنا رہی ہے جس کا اظہار جیرمی کاربن کے ابھار میں نظر رہا ہے۔

اس کے بعد بات کیلئے اسماء فاروق کو دعوت دی گئی۔ اسماء کا کہنا تھا پاکستان کی حالت دن بہ دن دگر گوں ہوتی جارہی ہے۔ گو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گروتھ ریٹ اڑھائی فیصد ہے مگر ہمیں ہرطرف مینوفیکچر نگ یونٹ بند ہوتے نظر آرہے ہیں۔ پاکستان کا پاورلومز سیکٹر تباہی کے دہانے پہ کھڑا ہے۔ آج پاکستان کی سرکار مکمل طور پر آئی ایم ایف کے ماتحت ہے اور حکومت نجکاری کے حملے کررہی ہے جس کے لیے افراتفری کا ماحول پیدا کرنے کیلئے کٹھ پتلی سیاستدانوں کے دھرنے اور لانگ مارچ کروائے جارہے ہیں۔ مگر آج عوام کے اندر یہ سب سیاسی جماعتیں بالکل غیر مقبول ہیں اور ایک خلاء موجود ہے۔

اسماء کے بعد فرحان رشید نے بات کو آگے بڑھایا۔ فرحان کا کہنا تھا کہ سرمایہ داری کی بنیاد اشیا کو فروخت کیلئے تخلیق کرنے پہ ہے۔ آج اشیا کی افراط ہے مگر عوام کی قوتِ خرید باقی نہیں رہی۔ آج سرمایہ دارانہ نظام ذرائع پیداوار کی ترقی کے پیروں میں بیڑی بن چکا ہے اور مجموعی طور پر انسانیت کو پیچھے کی طرف دھکیل رہا ہے۔ فرحان کا کہنا تھا کہ اگر عالمی منظر نامے کو دیکھا جائے تو اس کو انقلاب سے پہلے کا دور کہا جاسکتا ہے کہ جب ساری دنیا کے اندر عوام کی خود رو تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ وہ پرانی ساری جماعتوں کو رد کر رہے ہیں اور ان کے اندر پیاس موجود ہے تبدیلی کیلئے۔

فرحان کے بعد وقاص سیال نے لاطینی امریکہ کی صورتحال پہ بات رکھی کہ وہاں انقلابوں کا وسیع سلسلہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ حالیہ عرصے کے اندر چلی، ایکواڈور اور کولمبیا کی عوامی تحریکوں نے ریاست کو مکمل طور پر چیلنج کردیا ہے۔ آج ریاست مکمل طور پہ سرمایہ دار طبقے کے آلہ کار کے طور پر محنت کشوں اور نچلے طبقے کی تحریکوں پہ ننگا جبر کررہی ہے۔ وہیں لاطینی امریکہ میں بولیویا اور وینزویلا کے اندر نظر آتا ہے جب وہاں انقلابات ہوئے مگر ان کو حتمی سوشلسٹ سماج تخلیق کرنے کی طرف نہیں بڑھایا گیا تو وہ خود اپنے لیے ناسور بن گئے۔ یہ سب تجربات واضح کرتے ہیں کہ بغیر سوشلسٹ تبدیلی کے نظام کو نہ برقرار جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی اور صورت میں بدلنا ممکن ہے۔

وقاص کے بعد راول اسد نے یورپی یونین کے تضادات پہ بات رکھی۔ راول کا کہنا تھا کہ آج سے چار سال قبل تک برطانیہ یورپی یونین کا مستحکم ترین ملک تھا مگر آج سب سے زیادہ عدم استحکام کا شکار ہے اور انتخابات کے بعد بریگزٹ کا معاملہ نئی بننے والی سرکار کیلئے درد سر بن چکا ہے۔ راول کا کہنا تھا کہ فرانس کے اندر ابھرنے والی تحریک (پیلی واسکٹ تحریک) فرانس کے محنت کش طبقے کے شعور میں ایک بہت بڑی جست کا اظہار تھی اور 5 دسمبر کو ہونے والی عام ہڑتال فرانس میں طبقاتی جدوجہد میں مزید شدت پیدا کرے گی۔ آج ایران کے اندر عوامی تحریک موجود ہے اور وہ ملا اشرافیہ کو چیلنج کررہی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے اندر دوبارہ تحرک پیدا ہورہا ہے جو پچھلی تحریکوں کے تجربات سے لیس ہے۔ سعودی عرب اپنے معاشی مسائل کے حل کیلئے آج لبرل ازم کو خوش آمدید کہہ رہا ہے۔ راول کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں مودی حکومت کے خلاف 20 جنوری 2020 کو ایک عام ہڑتال کی کال دے دی گئی ہے۔

سکول کا سم آپ فضیل اصغر نے کیا۔ فضیل کا کہنا تھا سرمایہ داری کے اندر کسی ایک ملک کو دنیا سے کاٹ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔ آج سرمایہ داری بحران کا شکار ہے جو ساری دنیا کو جکڑے ہوئے ہے۔ 2008 کے عالمی معاشی بحران نے سرمایہ داری کے ابدیت کے خواب کو چکنا چور کردیا ہے۔ امریکہ جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا کا تھانیدار بن کر ابھرا تھا آج اپنا کردار نبھانے سے قاصر ہے۔ اس صورتحال کے اندر پاکستان کی گماشتہ ریاست کا امریکہ نے جنوبی ایشیا میں کردار بہت کم کر دیا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی سرکار یتیمی کی حالت میں اِدھر اُدھر ہاتھ پیر مار رہی ہے۔ اس صورتحال کے اندر پاکستان کا معاشی بحران شدید ترین ہوتا جارہا ہے۔ ایک طرف برآمدات میں کوئی خاطرخواہ اضافہ نہیں ہورہا اور مستقبل میں بھی اس کے امکانات معدوم ہیں۔ وہیں آئی ایم ایف کے دباؤ پر ڈالر کو آزاد چھوڑ دیا گیا ہے جس کی بنا پہ روپے کی قدر میں واضح گراوٹ دیکھی گئی ہے۔ اس کا سارا دباؤ عام عوام پر لادا گیا اور اب مزید نجکاری کے حملوں کا بھی سارا دباؤ عام عوام پہ ڈالا جارہا ہے، جس کے خلاف محنت کش طبقے کے اندر غم و غصہ پایا جارہا ہے اور مستقبل میں تحریکوں کے پھوٹنے کے واضح حالات موجود ہیں۔ ضرورت ہے ایک ایسی قیادت کی تعمیر کی جو ان سب تحریکوں کو درست نظریات کے گرد جوڑے اور سوشلسٹ انقلاب کرے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.