|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|
6 جولائی 2019ء کو لاہور میں پروگریسو یوتھ الائنس کے زیرِ اہتمام دوسرے ریجنل مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا۔ سکول مجموعی طور پر دو سیشنز پر مشتمل تھا جس میں پہلا سیشن ”جدلیاتی مادیت“ اور دوسرا سیشن ”زر کی سرمائے میں تبدیلی(داس کیپیٹل)“ کے حوالے سے تھا۔ پہلے سیشن ”جدلیاتی مادیت“کو چیئر رائے اسد نے کیا اور تفصیلی بحث کا آغاز کامریڈ سلمیٰ نے کیا۔
بات کا آغاز کرتے ہوئے سلمیٰ نے کہا کہ فلسفے کا بنیادی سوال وجود اور شعور کا سوال ہے اور اسی سوال کے گرد ہمیں دو قسم کے فلسفے دیکھنے کو ملتے ہیں، ایک خیال پرست اور دوسرا مادیت پسند۔ ان دونوں فلسفوں کی بنیاد پر مزید ہمیں کئی فلسفے نظر آتے ہیں جیسے خیال پرست فلسفیوں میں کئی ایسے ہیں جو مادے کے وجود سے ہی انکاری ہیں اور خیال کو واحد حقیقت سمجھتے ہیں۔ اسی طرح مادیت پسندوں میں کئی ایسے ہیں جو خیال کے وجود سے انکار کرتے ہیں اور مادے کو واحد سچائی سمجھتے ہیں۔ مارکسزم اور جدلیاتی مادیت کی خوبصورتی یہی ہے کہ یہ خیال اور مادے کے درمیان تعلق کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔ گو کہ ہم جانتے ہیں کہ مادہ بنیادی ہے اور شعور مادے سے ہی جنم لیتا ہے اور اسی کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے لیکن خیال کے وجود سے انکار نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ جس طرح مادہ شعور پر اثر انداز ہو کر اسے تبدیل کرتا ہے اسی طرح شعور بھی مادے کو بدلتا ہے۔ آج تک کی انسانی ترقی اور ارتقاء اس عمل کی واضح مثال ہے۔
اینگلز نے جدلیاتی مادیت کے تین اصول واضح کیے جن میں ”مقدار کی معیار میں تبدیلی“، ”زدین کا انضمام“ اور ”نفی کی نفی“ شامل ہیں۔ سلمیٰ نے مختلف مثالوں کے ذریعے ان تینوں اصولوں کی وضاحت کی اور ان کو سماج کے ساتھ جوڑا۔ جیسے ”مقدار کی معیار میں تبدیلی“ کی مثال پانی سے لی جا سکتی ہے۔ پانی کو گرم کریں تو 100 کے درجہ حرارت تک پہنچنے تک اس میں توانائی کی مقدار جمع ہوتی رہتی ہے جو 100 کے درجہ حرارت پر پہنچ کر معیاری جست کے ذریعے پانی بھاپ میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ سماج بھی اسی عمل سے گزرتا ہے۔ ایک وقت تک ظلم و جبر کے خلاف غم و غصہ عوام میں مقدار کی صورت جمع ہوتا رہتا ہے جو احتجاجوں کی شکل میں مقداری اظہار بھی کرتا ہے اور ایک مخصوص وقت پر یہ مقدار معیار میں تبدیل ہو جاتی ہے یعنی انقلابات جنم لیتے ہیں۔
اس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ سوالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دیگر مقررین نے بحث میں حصہ لیا۔ آدم پال نے بات کرتے ہوئے کہا کہ جدلیاتی مادیت کے سوا تمام فلسفے عوام دشمن ہیں جیسے خیال پرست یہ کہتے ہیں کہ ”مادے“ کو جانا نہیں جا سکتا اور اگر اسے جانا نہیں جا سکتا تو مطلب تبدیل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا حتمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سماج کو نہیں بدلا جا سکتا جو کہ غلط ہے۔ شہزاد نے کہا کہ جدلیاتی مادیت ماضی کے تمام فلسفوں کا نچوڑ ہے۔ پہلے بھی کئی فلسفی جدلیاتی طریقہ کار کو استعمال کرتے رہے ہیں جن میں سب سے شاندار مثال ہیگل کی ہے۔ لیکن جدلیات کو مادیت کے ساتھ جوڑ نے کا کارنامہ مارکس نے سرانجام دیا۔ دیگر مقررین نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور آخر میں سلمیٰ نے بحث کا آختتام کیا۔
وقفے کے بعد دوسرا سیشن شروع ہوا جس کا موضوع ”زر کی سرمائے میں تبدیلی (داس کیپیٹل)“ تھا۔ سیشن کو چیئر مشعل وائیں نے کیا اور تفصیلی بحث کا آغاز زین العابدین نے کیا۔
زین نے آغاز میں داس کیپیٹل کے پہلے باب پر بات کی جس میں مارکس ”شے(Commodity)“ کی وضاحت کرتا ہے۔ کوئی بھی ایسی چیز جس کو کسی مقصد کے لئے استعمال کیا جا سکے اور جس کا تبادلہ کیا جا سکے ”شے“ کہلاتی ہے۔ انتہائی اہم بات جسے سمجھنا بہت ضروری ہے وہ یہ کہ کسی بھی ”شے“ کی قدر(Value) صرف انسانی محنت ہی تخلیق کر سکتی ہے اور اسی طرح قدرِ زائد (Surplus Value) بھی انسانی محنت سے ہی تخلیق ہوتی ہے۔ مارکس کہتا ہے سرمایہ سب سے پہلے اپنا اظہار پیسے کی صورت میں کرتا ہے۔ زین نے بتایا کہ مارکس ان ابواب میں دو قسم کے عوامل کی بات کرتا ہے۔ پہلا عمل انتہائی سادہ ہے اور عمومی طور پر سماج میں وقوع پذیر ہو رہا ہوتا ہے۔ اسکو مارکس C-M-C کے چکر کا نام دیتا ہے۔ یعنی خریدنے کی غرض سے بیچنا۔ ایک شخص کے پاس گندم ہے اور وہ گندم کو بیچ کر پیسہ حاصل کرتا ہے تاکہ اس پیسے کے بدلے میں ضرورت کی دوسری اشیا خرید سکے۔ اس عمل میں ”سرمایہ“ نہیں بنتا کیونکہ ایک جیسی قدر(Value) رکھنے والی دو مختلف اشیا کا آپس میں تبادلہ ہو جاتا ہے۔ لیکن دوسرا عمل پیچیدہ ہے جسے مارکس M-C-M کہتا ہے۔ یعنی بیچنے کی غرض سے خریدنا۔ مثال کے طور پر ایک شخص کے پاس 0 100 روپے ہیں جن سے وہ گندم کی ایک بوری خرید لیتا ہے اور گندم کی وہی بوری کسی دوسرے شخص کو 1100 روپے میں بیچ دیتا ہے۔ یہی وہ عمل ہے جس میں سرمایہ جنم لیتا ہے۔ لیکن یہاں پہ ایک پیچیدہ سوال ہے کہ اضافی100 روپے کہاں سے آئے۔ مختلف دانشور اور معیشت دان اس کی مختلف دلیلیں پیش کرتے ہیں جن میں سے بعض کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق رسد اور طلب (Demand And Supply) سے ہوتا ہے۔ یعنی موخر الذکر شخص 1000 روپے کی قیمت والی گندم کی بوری 1100 کی اس لیے خرید لیتا ہے کیونکہ اسے گندم کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔ مارکس ان تمام دلائل کو رد کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اضافی قدر انسانی محنت تخلیق کرتی ہے۔ زر اور سرمائے میں فرق بتاتے ہوئے زین نے کہا کہ سرمایہ ہمیشہ عمل میں رہ کر خود کو بڑھاتا رہتا ہے۔ اگر سرمائے کو عمل سے نکال لیا جائے اور اس میں اضافہ نہ ہو تو وہ زر ہوگا، سرمایہ نہیں رہے گا۔ اسی لیے مزدور کے ساتھ ساتھ سرمایہ دار بھی سرمائے کا غلام ہوتا ہے۔
اس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا اور دیگر مقررین نے بھی بحث میں حصہ لیا۔ آخر میں بات کو سمیٹتے ہوئے زین نے کہا کہ سرمایہ دار طبقہ منافع کی ہوس میں مزدوروں کا استحصال کرکے بے انتہا پیداوار کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے سماج میں اشیا کی کثرت ہو جاتی ہے لیکن لوگوں کی قوتِ خرید کم ہوتی جاتی ہے۔ اس طرح زائد پیداوار کا بحران جنم لیتا ہے جس پر قابو پانے کے لئے سرمایہ دار نئی منڈیاں تلاش کرتا ہے۔ آج سرمایہ داری اپنے حتمی نامیاتی بحران سے گزر رہی ہے کیونکہ پوری دنیا میں ہر جگہ زائد پیداوار کا بحران ہے اور کوئی نئی منڈی باقی نہیں رہی۔ اس لیے واحد حل ایک نئے نظام کی تعمیر ہے جسے ہم سوشلزم کے نام سے جانتے ہیں۔
سکول کا اختتام انٹرنیشنل ترانہ (مزدوروں کا عالمی ترانہ) گا کر کیا گیا۔