|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|
13اپریل 2018ء کو بروز جمعہ پروگریسو یوتھ الائنس کے زیرِ اہتمام مشال خان کی پہلی برسی پر ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب میں انجینئرنگ یونیورسٹی،پنجاب یونیورسٹی اور دیگر اداروں کے طلبہ اور مختلف شعبہ جات کے محنت کشوں نے شرکت کی۔ تقریب کی صدارت عدیل زیدی نے کی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروگریسو یوتھ الائنس کے مرکزی آرگنائزر زین العابدین نے کہا کہ مشال کے قتل کو ایک سال بیت چکا ہے لیکن اس کی جدوجہد آج بھی زندہ ہے۔ عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں پڑھنے والا طالب علم جو فیسوں میں اضافے، انتظامیہ کی بد عنوانی اور دیگر مسائل پر بات رہا تھا، اسے ایک بے بنیاد الزام لگا کر مار دیا گیا۔بعد میں ثابت ہوا کہ وہ الزام جھوٹا تھا اور قاتلوں کا آزاد گھومنا ثابت کرتا ہے کہ ریاست اور انتظامیہ قتل میں ملوث تھی۔ انتظامیہ ان مطالبات اور ان کے گرد بننے والی تحریک سے خوفزدہ تھے اور مشال کی آواز کو دبانے کے لئے قتل کا منصوبہ بنایا گیا۔ لیکن ریاست کا یہ حربہ بری طرح ناکام ہوا اور مشال کے حق میں ہونے والے احتجاجوں نے مزید خوف پیدا کر دیا۔مشال کا واقعہ ایک معیاری جست ثابت ہوا اور اس کے بعد طلبہ کی تحریکوں میں شدت نظر آتی ہے۔
زین نے مزید کہا کہ دہشت گردی کو بہانہ بنا کر یونیورسٹیوں کو فوجی چوکیوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے جن کامقصد دہشت گردی کا خاتمہ نہیں بلکہ طلبہ میں خوف و حراس پھیلانا ہے۔ان تمام اقدامات کے باوجود ایسے واقعات میں کمی آنے کی بجائے مزید اضافہ ہوا ہے۔ ریاست کی پالتو تنظیمیں کھلم کھلا اداروں میں دہشت پھیلا رہی ہیں اور دوسری طرف طلبہ سیاست پر پابندی ہے۔ آج ہر ادارے کے طالب علم بیزار ہیں اور آئے روز احتجاج کر رہے ہیں۔مستقبل میں یہ سب مل کر لڑنے کی طرف جائیں گے اور اپنے حقوق حاصل کریں گے۔
اس کے بعد واپڈا سے مقصود ہمدانی نے محنت کشوں کے حالات کی بات کرتے ہوئے کہا کہ مزدوروں کے بھی یہی مسائل ہیں۔محنت کشوں اور نوجوانوں کی جدوجہد کی تاریخ پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہی وہ طاقت تھی جس نے ایوب آمریت کا خاتمہ کیا تھا اور آج بھی ہمیں متحد ہو کر لڑنے کی ضرورت ہے۔اس کے بعد رائے اسد نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا پاکستان ہی میں طلبہ یونینز نے لڑ کے بہت سے حقوق حاصل کیے ۔ضیاء آمریت میں یونینز پر بین لگا کر جمعیت جیسی غنڈہ گرد تنظیموں کو متعارف کروایا گیا۔آج مشال خان کی برسی منانے کی وجہ یہی ہے کہ وہ جن مسائل کی بات کر رہا تھا وہ تمام طلبہ کے مسائل ہیں اور تمام طلبہ متحد ہو کر اور اپنے مطالبات منوا کر مشال کے قتل کا بدلہ لے سکتے ہیں۔
تقریب کے آخری کلمات ادا کرتے ہوئے آفتاب اشرف نے کہا کہ تاریخ میں جتنے بھی انقلابات ہوئے ان میں نوجوانوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔نوجوان ہی انقلاب کا پیغام لوگوں تک لے کر جاتے ہیں اور آج کے نوجوانوں کا بھی یہی فریضہ ہے کہ وہ یہ پیغام لوگوں تک لے کر جائیں اور ایسی پارٹی تعمیر کریں جو مستقبل میں بننے والی انقلابی تحریک کی قیادت کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کر سکے۔