|تحریر: مرکزی بیورو|
چند روز قبل ساہیوال میں انسانیت سوز واقعہ رونما ہوا جس میں سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کی جانب سے خلیل نامی شخص کو اسکی بیٹی، دوست اور بیوی سمیت کھلے عام سڑک پر گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ پروگریسو یوتھ الائنس ریاستی دہشت گردی کے اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔ریاستی دہشت گردی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی اس طرح کے بے شمار واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ مثلا چند ہی ماہ پہلے ہمیں کراچی میں ایک واقعہ دیکھنے کو ملا جس میں نقیب اللہ محسود نامی نوجوان کو کراچی پولیس کے ایس ایس پی راو انوار نے دن دہاڑے ایک جعلی انکاونٹر میں قتل کر دیا۔ اسی طرح کے اور بھی بے شمار واقعات مملکت خداداد میں آئے روز رونما ہوتے ہیں۔ یہ تو وہ واقعات ہیں جو سوشل میڈیا کی بدولت منظر عام پر آگئے۔ مثلا بلوچ ، پشتون اور سندھی مسنگ پرسنز کے معاملے کو ہی دیکھ لیں۔اگر یہ واقع سوشل میڈیا پر نہ آیا ہوتا تووہی ٹی وی چینل جو آج سچ دکھانے پر مجبور ہیں وہ یہ دکھا رہے ہوتے’ کہ سی ٹی ڈی کے جانباز جوانوں نے چار خطرناک دہشتگردوں کو سخت پولیس مقابلے میں مار گرایا۔‘ سوشل میڈیا پر مشہور ہونے کے بعد پورے ملک میں غصے کی ایک لہر پھیل گئی اور عوامی رد عمل سے خوف سے نہ چاہتے ہوئے حکومت کو ہاتھ پیر ہلانے پڑے۔ درحقیقت آغاز میں حکومت کی جانب سے کوششیں کی گئیں کہ کسی طرح اس واقعہ کو دوسری جانب موڑا جائے اور انہیں دہشتگرد ثابت کیا جائے۔جس کی واضح مثال پی ٹی آئی حکومت کے وزرا کے بیانات ہیں۔ مگر عوامی ردعمل ہی اتنا بھرپور تھا کہ مجبورا حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔
بلوچستان اور فاٹا میں اس طرح کے واقعات آئے روز رونما ہوتے ہیں جن کے بارے میں کہیں کوئی خبر یا تجزیہ سننے کو نہیں ملتا۔ اس وقت بھی کوئٹہ میں مسنگ پرسنز کی بازیابی کیلئے ایک کیمپ لگا ہوا ہے جس میں روز کوئی نیا فریادی اپنے کسی پیارے کی تصویر لے کر آ جاتا ہے۔ درحقیقت وہ اسی طرح کے واقعات ہی تھے جن کے خلاف غصے کے طور پر پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) ابھری تھی جو ابھی تک جاری ہے۔
ہم یہاں پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ واقع یا اس طرح کے دیگر واقعات بنیادی طور پر کسی ایک فرد یا کسی ایک پولیس تھانے کی فورس کی ’’غلط حرکت‘‘ نہیں ہوتی بلکہ درحقیقت مملکت خداد کی ’’عظیم‘‘ ریاست کا حقیقی چہرہ ہی یہی ہے۔چاہے وہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ہوں (جن میں کمر ہمیشہ عوام کی ٹوٹتی ہے) یا پھر کرپشن کے خلاف، ہر جگہ ٹی وی پر کامیابی اور زمین پر واضح ناکامی ہی نظر آتی ہے۔ پولیس کی جانب سے اس طرح کے واقعات معمول کا حصہ ہیں۔ درحقیقت پولیس کی روزی روٹی ہی انسانی سمگلنگ، اغواکاری ، منشیات کا کاروبار ، بلیک میلنگ اور پیسے لے کر یا ’’اوپر‘‘ سے حکم آنے کی صورت میں (جب بڑوں نے خود پیسہ لینا ہو) قتل کرنے سے چلتی ہے۔اگر انہیں ’’پیشہ ور قاتل‘‘ کہا جائے تو یہ بالکل بھی غلط نہ ہوگا۔
اپنے جنم سے لے کر آج تک اس ریاست کے ’’حکمرانوں‘‘نے اس ریاست کو بالکل ویسے ہی چلایا ہے جیسے ایک نشئی اپنے گھر کو چلاتا ہے یعنی کہ قرضے اور امداد (بھیک)لے کر۔ٹھیک اس طرح جیسے ایک نشئی اپنی بیٹیوں تک کو بیچنے سے بالکل گریز نہیں کرتا ٹھیک اسی طرح اس ریاست کے ’’حکمرانوں‘‘ نے بھی یہاں کی عوام کا سودا کرنے میں ایک لمحے کی بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا اور مکمل اعتماد (گھمنڈ)کیساتھ یہاں کی عوام کی عزتوں اور جانوں تک کے سودے کیے۔ خریدار کبھی امریکہ رہا، کبھی سعودی عرب، کبھی کوئی یورپی سامراجی ریاست تو کبھی چین۔ جب گھر کے بڑے یہ سب کریں گے تو چھوٹوں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ اسی عمومی نام نہاد ’’خارجہ پالیسی‘‘ کے اثرات ہمیں اس مملکت خداد کے تمام ریاستی اداروں میں بھی واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ پولیس کا ادارہ اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
مگر یہاں ایک بات پر غور کرنے ضرورت ہے کہ تمام تر کرپشن اور نااہلی کے باوجود جب بھی عوام کسی مسئلے کیلئے اٹھی ہے تو ہمیں اس ریاست کے تمام تر ادارے اپنی مکمل آب و تاب کیساتھ حرکت میں آتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پھر چاہے وہ کسانوں کا کوئی احتجاج ہو، کچی بستی والوں کا کوئی احتجاج ہو، ینگ ڈاکٹروں یا انجینئروں کا اپنے جائز مطالبات کیلئے کوئی احتجاج ہو، سرکاری ملازمین کا اپنی تنخواہوں اور مستقلی کیلئے احتجاج ہو ، پرائیویٹ صنعت کے محنت کشوں کا اپنے مطالبات کیلئے احتجاج ہو یا پھر کسی مظلوم کا زندہ رہنے کا حق مانگنے کیلئے احتجاج ہوہمیں یہی نااہل ریاستی ادارے مکمل ایکشن میں نظر آتے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ ریاست درحقیقت یہاں کے حکمران طبقے کی حفاظت کیلئے ہے اور عوام کے سامنے ’’غیر جانبدار‘‘ ہونے کا محض ڈرامہ کرتی ہے۔ یہ یہاں کے سرمایہ داروں ، جاگیر داروں اور سامراجی دلالوں کی ریاست ہے جس اصل کام ان حکمرانوں کی دولت کی حفاظت کرنا ہے۔ اسی لیے تو جہاں ایک طرف مہنگائی، لاعلاجی، غربت اور معاشی حملے کیے جا رہے ہیں تو دوسری جانب لاشیں گرائی جا رہی ہیں۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ خلیل، نقیب اللہ محسود اور ایسے دیگر بے شمار بے گناہوں کے خون کا بدلہ تب ہی لیا جا سکتا ہے جب اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا جائے جو دولت اور پیسے کی خاطر انسانی جانوں کی بَلی کو جواز فراہم کرتا ہے۔
آج ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اس تمام تر قتل و غارت گری کا حل مشترکہ جدوجہد ہے۔ حکمران طبقے کی اس وحشی ریاست سے امیدیں لگانا ما سوائے بے وقوفی کے اور کچھ بھی نہیں ہے اور نہ ہی رونے دھونے سے کچھ ہوگا۔جینا ہے تو لڑنا ہوگا!