|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|
رات کے ڈیڑھ بجے 15 سے 20 گارڈ اور پولیس اہلکاروں کے ہمراہ RT صاحب نے ہاسٹل کے کمروں میں ”چھاپہ“ مارا۔ یہ چھاپہ کسی ممکنہ دہشتگرد یا کسی مجرم کی تلاش یا ہاسٹل میں منشیات کے لیے نہیں بلکہ انٹرنشپ اور سمر سمیسٹر کے لیے آئے طلبہ کے ڈیڑھ ماہ کے لیے جیل جیسے ہاسٹلز جہاں نہ ہوا (ventilation) کا کوئی نظام ہے، جہاں بیت الخلاء (washrooms) کے گٹر بند رہتے ہیں اور انتہائی بوسیدہ عمارتیں ہیں۔ کسی بھی نقصان کے بے تحاشہ خدشات موجود ہیں۔ ہاسٹلوں کے حالات کی الگ داستان ہے۔ایک بندے کی رہائش کیلئے بنے ہوئے کمروں میں دو دو بندوں کی الاٹمنٹ کی جا رہی ہے۔ جو کمرہ آج سے پہلے مفت ملتا تھا اور جہاں ریگولر سمسٹر (4 ماہ) کی 2400 فیس تھی، کی چھ ہزار فیس جمع نہ کرانے پر ایک ایک کر کے طلبہ کو کمروں سے نکال کے ان اہلکاروں کے حوالے کیا گیا اور ایک کمرے میں جمع کیا گیا۔ اس کے بعد اس کمرے سے کسی کو بھی باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ جو کوئی اپنی شرٹ پہننے یا اپنا کارڈ لینے یا اپنا سامان اٹھانے کے لیے جاتا تو اس کے ساتھ ایک اہلکار کو بھیجا جاتا۔ اس وقت پورا ماحول تھانے والا بنایا گیا اور طلبہ کی جانب اہلکاروں کا رویہ ایسا تھا جیسے کہ مجرم ہوں۔ انہیں اس وقت یہ یاد نہیں تھا کہ وہ ہمارے تحفظ کے لیے ہیں۔ وہ اپنا رعب دکھانے کے لیے وہی رویہ اپنائے ہوئے تھے جو پولیس کا عموماً عام عوام کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس ”تھانے“ میں جب سب خاموشی سے RTسے فیس جمع نہ کرانے پر ذلیل ہورہے تھے تو ایک طالب علم نے کھڑے ہو کر RT صاحب سے صرف ابھی پہلا سوال کیا کہ کس چیز کے پیسے؟ تو بڑے پیار سے اسے آ گے بلا کر دھکے دیے گئے، دھمکیاں دی گئیں (RT صاحب ایک ٹیچر تھے) اور سیکیورٹی آفیسر کو بلا کر اسے فوراً سامان سمیت کیمپس سے باہر نکالنے کا کہا۔ یہ رویہ ایک استاد کا تھا جو غالباً بھول چکا تھا کہ وہ اس ادارے کا ملازم بعد میں ہے اور ایک استاد پہلے! یہ سلسلہ دو گھنٹے ایسے ہی چلا، ہر کسی کو گارڈ کے ساتھ بھیج کے سامان اٹھوایا گیا اور 20 طلباء کو رات کے دو بجے یونیورسٹی سے نکالا گیا۔ کوئی سندھ سے تھا تو کوئی ملتان سے۔ ان کی جان و مال کی ذمہ داری یونیورسٹی پر عائد ہوتی ہے۔ اس سب میں بہت سے لوگ وڈیو تک بنانے کو تیار نہیں تھے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یونیورسٹی کے اندر طلبہ میں اپنے حقوق کے حوالے سے شعور اور ایک طلبہ پلیٹ فارم کی اشد ضرورت ہے لیکن اس طرح کا ماحول نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ مختلف سوسائٹیز کے چکروں میں لگے ہوئے ہیں اور ان کے کام اس طرح کیے جاتے ہیں جیسے ثواب کا کام ہو۔ کچھ ضیاء کی پیداواریں لڑکیوں کے دوپٹوں سے چھاتیوں تک نظر رکھنے میں لگے ہوئے ہیں اور یو ای ٹی میں ایک بہت بڑا خلا موجود ہے۔ لیکن کیمپس میں طلبہ کے حقوق پر جو پابندیاں لگ رہی ہیں اور جو آنے والے دنوں میں فیسوں میں انتہائی پیمانے میں اضافے ہونے والے ہیں وہ سب کی چیخیں نکلوائیں گے اور اس صورت میں طلبہ کی جڑت اور طلبہ کا ایک ہونا ناگزیر ہوگا۔
طلبہ کو بھی اس واقعے سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک باشعور اور انقلابی سوچ کے ساتھ، ایک اکٹھ اوراتحادسے ہی آ نے والے دنوں میں فیسوں میں اضافوں، انتظامیہ کی بدمعاشی، سیکیورٹی کی دہشت گردی اور باقی مسئلوں کا مقابلہ اور کیمپس میں ایک بہتر ماحول قائم کیا جاسکتا ہے۔ اسی صورت میں ہراسانی (harassment)کا مقابلہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ طلبہ اتحاد سے ڈرتے ہیں اور اکیلے انسان کو نکال باہر کرتے ہیں اسی لیے آج فوراً پہلے اس طالب علم کو یہ کہہ کر نکالا گیا کہ”یہ لیڈر بنتا ہے اسے نکالو باہر“، ڈر تھا کہ کہیں طلبہ ایک آواز نہ ہو جائیں۔ چیئرمین HEC کے بیان کے بعد جس میں فیسوں کے اضافوں کی وجہ سے طلبہ کی ممکنہ تحریکوں سے نمٹنے کے لیے بروقت اقدامات کے احکامات تھے، کیمپس میں social networking sites کا بند ہونا اور انتظامیہ کا ابھی سے جارحانہ طریقہ کار اپنانا اسی کی ایک کڑی ہے۔ ان کا مقابلہ کرنے کیلئے طلبہ کو ایک پلیٹ فارم پرم متحد ہونا ہوگا۔