|رپورٹ: پی وائی اے، بلوچستان|
پروگریسو یوتھ الائنس بلوچستان کے زیرِاہتمام گذشتہ روز ظریف شہید آڈیٹوریم سائنس کالج کوئٹہ میںیوتھ سیمینار بعنوان’’بلوچستان کے طلبہ اور نوجوانوں کے مسائل اور اُن کا حل‘‘ کا انعقاد ہوا۔ اس سیمینار سے پروگریسو یوتھ الائنس کے بلوچستان میں کام کا باقاعدہ آغاز کیا گیا ہے۔ سیمینار میں بلوچستان یونیورسٹی، گورنمنٹ لاکالج، زرعی کالج، میڈیکل کالج کے ساتھ ساتھ دیگر تعلیمی اداروں سے اسی سے زائد طلبہ نے شرکت کی۔
سیمینار کا باقاعدہ آغاز کریم پرہر نے کیا، جس میں اُنہوں نے پروگریسو یوتھ الائنس کے اغراض و مقاصد پر تفصیل سے بات رکھی۔ کریم نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں پروگریسو یوتھ الائنس بلوچستان میں طلبہ اور نوجوانوں کو منظم کرنے اور ان کی لڑائی کو درست مارکسی نظریات پر استوار کرنے کی طرف جا رہی ہے جب روایتی سیاست زوال پذیری کا شکار ہے اور طلبہ اور نوجوانوں کی بھاری اکثریت ان تنظیموں سے بیگانہ ہو چکی ہے۔ ان تنظیموں میں سے بیشتر ماضی میں طلبہ میں وسیع بنیادیں رکھتیں تھیں مگر نظریات کو پس پشت ڈال دینے اور طلبہ حقوق کی لڑائی کو چھوڑ کر مفادپرستی ، موقع پرستی اور انتہا پسندی کی سیاست شروع کردی گئی۔ یہ تنظیمیں بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھتی تھیں مگر نظریاتی کمزوریوں اور بالخصوص سوویت یونین کے انہدام نے اس زوال پذیری کو مہمیز دی۔ خاص طور پر سوویت یونین کے انہدام کے بعد ان قوم پرست تنظیموں میں جو تھوڑا بہت ترقی پسند رجحان تھا وہ بھی ختم ہوتا گیا اور یہ قوم پرستی کی دلدل میں دھنستی چلی گئیں۔ آج ان نام نہاد طلبہ تنظیموں کا طلبہ مسائل سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور نظریات کو ویسے ہی سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ بڑی اور مشہور شخصیات کے گرد ساری سیاست ترتیب دی جاتی ہے اور عام طلبہ سے بیگانگی بڑھتی جاتی ہے۔ قوم پرست پارٹیاں ریاستی دھڑوںیا سامراجی طاقتوں کی کاسہ لیس بن چکی ہیں۔ یہ پارٹیاں بلوچستان کی قومی آزادی کی تحریک کو پاکستان اور خطے کے دیگر محنت کشوں کے ساتھ جوڑنے میں مکمل طور پر ناکام ہوئی ہیں۔ قومی محرومی کو اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لئے استعمال کرتی نظر آتی ہیں۔ ان حالات میں طلبہ حقوق کی لڑائی کو آگے بڑھانے اور نوجوانوں کو منظم کرنے کے لئے درست نظریات و پروگرام پر پروگریسو یوتھ الائنس کے کام کاآغاز کیا جا رہا ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس پورے پاکستان میں طلبہ اور نوجوانوں کو منظم کرنے اور مسائل کے خلاف جدوجہد کررہا ہے اور عالمی سطح پر محنت کشوں اور نوجوانوں کے ساتھ جڑت رکھتا ہے۔
اس کے بعد مختلف تعلیمی اداروں سے آئے ہوئے طلبہ جن میں گورنمنٹ لاء کالج سے عالمگیر خان اورزوہیب خان نے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے پی وائی اے کے اس اقدام اور کہا کہ بلوچستان کے گُھٹن زدہ ماحول میں ایک سنجیدہ کوشش کی ہے جس کا ابھی آغاز ہوا ہے۔ دونوں نے اپنے متعلقہ ادارے کے حوالے سے بات کی کہ لاء کالج جو کہ پورے صوبے میں قانون کی تعلیم کا واحد سرکاری ادارہ ہے مگر باوجود اس کے یہاں پر بھاری بھر کم فیسیں لی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ طلبہ کو کسی بھی طرح کی لاقانونیت کیخلاف آواز تک اُٹھانے کی اجازت نہیں۔ ہم پروگریسیو یوتھ الائنس کے دوستوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے ہمیں ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا۔
نئے میڈیکل کالجز سے زاہد خان اور صمدجان نے اپنی تقاریر میں کہا کہ ہم پروگریسیو یوتھ الائنس کے شکرگزار ہیں جنہوں نے ہمیں اپنے مسائل کو منظرعام پر لانے کے لیے پلیٹ فارم دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے نئے کالجز کے غیر فعال ہونے کے حوالے سے پہلی مرتبہ آواز پروگریسیو یوتھ الائنس نے اُٹھائی ہے۔ ہم پروگریسیو یوتھ الائنس کیساتھ ہر مشکل میں کھڑے رہیں گے۔
زرعی کالج سے نسیم خان ناصر نے بات کرتے ہوئے کہا کہ دوسری تنظیموں کے برعکس پروگریسیو یوتھ الائنس نے طلبہ کے بنیادی مسائل کے حوالے سے پہلی مرتبہ انتہائی سنجیدہ بنیادوں پر بحث کھولنے کی ایک زبردست کوشش کی ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے زرعی کالج کے مسائل پر بات رکھی جس میں اُنہوں نے ہاسٹل میں سہولیات کی عدم موجودگی، فیسوں میں اضافے، ڈراپ آؤٹ سسٹم کے حوالے سے کُھل کے اظہار کیا۔
بلوچستان یونیورسٹی سے ابرار احمد اور افراسیاب خان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پروگریسیو یوتھ الائنس بلوچستان کی کاوشوں کو سراہنا چاہیے جنہوں نے بہت کم قوتوں کے ساتھ ایک سنجیدہ کوشش کا آغاز کیا ہے جس کا ہم تہہ دل سے مشکور ہیں۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ ہم کو اپنے مسائل کے حوالے سے آگاہی ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ طلبہ کے حقوق کے حوالے سے پروگریسیو یوتھ الائنس کی اس سنجیدہ کوشش کا ساتھ دے کر طلبہ کو ان کے بنیادی مسائل کے حوالے سے جدوجہد کرنی چاہیے۔
قائداعظم یونیورسٹی سے سیدال خان، صاحبزادہ افضل اور نبی کریمی نے بات کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے تو ہم پروگریسیو یوتھ الائنس کے دوستوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں، جنہوں نے بلوچستان کے اندر قومی، لسانی اور مذہبی تعصبات سے مبرا ایک ایسا پلیٹ فارم بلوچستان کے نوجوانوں کو فراہم کیا جہاں پر بلا کسی تفریق کے ہر نوجوان اپنی بات کر سکتا ہے اور اپنے مسائل کا کھل کر اظہار کر سکتا ہے۔ ہمیں اپنی بنیادی مسائل اور بنیادی حقوق کے لیے ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت تھی جس کے ذریعے درست جدوجہد کی جاسکے۔
پروگریسیو یوتھ الائنس بلوچستان کی طرف سے بلاول بلوچ نے کہا کہ آج ہم جس دور میں رہ رہے ہیں یہ ایک تیز ترین تبدیلیوں کا عہد ہے۔ اگر ہم دنیا بھر کے اندر طلبہ ، نوجوانوں اور محنت کشوں کے احتجاجوں اورتحریکوں پر نظر دوڑائیں تو ہمیں اپنی طاقت کا احساس ہو گا۔ پروگریسو یوتھ الائنس عالمی محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی یکجہتی کو اپنی قوت سمجھتا ہے۔ یہ جڑت ہی ہمیں مشکل سے مشکل حالات میں بھی کام کرنے سے نہیں روک سکتی۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کے اندر تمام تعلیمی اداروں میں ایک جیل اور تھانے کی سی فضا قائم کی گئی ہے جہاں پر طلبہ کو ذہنی مریض بنایا جا رہا ہے۔ اگر ہم واقعی میں اپنے بنیادی مسائل کا حل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جہاں پر ہم درست نظریات اور پروگرام سے لیس ہو کر ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر ہو کر جدوجہد کر سکیں۔ سیمینار کے اختتام میں ولی خان نے آئے ہوئے سب دوستوں کا شکریہ ادا کیا اور اُنہوں نے کہا کہ پروگریسیو یوتھ الائنس نہ صرف طلبہ کے لیے ایک پلیٹ فارم ہے بلکہ اُن نوجوانوں کے لیے بھی ہے جو کہ بیروزگار یا برسروزگار ہوں کیونکہ ایسے پلیٹ فارم کے ذریعے ہم اپنے بنیادی حقوق کے لیے آواز اُٹھا سکتے ہیں اور سب سے زیادہ اہم اس فرسودہ نصاب کا خاتمہ بھی کرسکتے ہیں جس نے ہمارے معاشرے کو اتنا بگاڑ دیا کہ تعلیمی اداروں سے ایک تخلیقی ذہن کے بجائے ایک تخریبی ذہن بن کر نکلتا ہے جو کہ معاشرے کے لیے ایک ناسور بن جاتا ہے۔ یہ سیمینار بلوچستان میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی حقیقی قیادت کو تعمیر کرنے میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور بلوچستان کی طلبہ تحریک کو بلوچستان اور خطے کے دیگر محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریکوں کے ساتھ جوڑنے کی طرف ایک قدم ہے۔