کراچی: ’’شاہ عنایت شہید کی جد وجہد اور سسکتی انسانیت کا مستقبل‘‘ سیمینار کا انعقاد

|رپورٹ: سجاد شیخ|

پروگریسیو یوتھ الائنس کراچی کے زیراہتمام 21مئی بروز اتوار شام 7 بجے ’’شاہ عنایت شہید کی جدوجہد اور سسکتی انسانیت کا مستقبل‘‘ کے عنوان سے ماروی گوٹھ میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا۔ سیمینار میں پچاس سے زائد نوجوانوں نے شرکت کی۔

اس موقع پر میزان راہی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شاہ عنائیت کی جدوجہد معاشی عمل میں مساوات کے لیے تھی اور جس کے لیے شاہ اور اس کے ساتھیوں نے اجتماعی کاشتکاری کو نصب العین بنایاجس کی وجہ سے شاہ کے ہم خیالوں کا حلقہ اثر بڑھنے لگا۔ مغل بادشاہ اورنگزیب اور اس کے حواریوں نے اپنے نظام اور اقتدار کے لیے خطرہ محسوس کرتے ہوئے شاہ عنایت کو قتل کر دیا۔ مگر شاہ عنایت مر کر بھی تاریخ میں امر ہو گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ گوادر میں محنت کشوں کا قتل عام اس بات کی غمازی کر رہاہے کہ پاکستان کی ریاست اور سرمایہ داری مغل سلطنت کی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ پاکستان کے نوجوانوں کو اس ریاست اور نظام کے خلاف لڑنے کے لیے شاہ عنایت جیسی جرات مندجدوجہد کرنا ہو گی اور آج کے دور میں یہ صرف انقلابی سوشلسٹ نظریات پر عمل پیرا ہو کر ہی کیا جا سکتا ہے۔

پروفیسر خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شاہ عنایت کی جدوجہد کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس وقت کے پس منظر کو سمجھیں جس کی وجہ سے شاہ عنایت جیسے کردار ابھر کر سامنے آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مغل سلطنت کی تاریخی زوال پذیری کی وجہ سے برصغیر کے دیگر حصوں کی طرح سندھ میں بھی لوٹ کھسوٹ زوروں پر تھی۔ بااثر طبقات کی لوٹ مار کی وجہ سے عام کسانوں کے حالات زندگی بدتر ہوچکے تھے۔ ان حالات میں شاہ عنایت نے طبقاتی اونچ نیچ کے خاتمے کے لیے معاشی عمل میں مساوات کا نعرہ بلند کیا جس کو مظلوم کسانوں اور عوام میں بے پناہ پذیرائی ملی۔ پروفیسر خان نے تفصیل کے ساتھ برصغیر اور سندھ میں دیگر بیرونی حملہ آوروں اور ان کی لوٹ کھسوٹ پر بھی بات رکھی۔ سیمینار سے عوامی جمہوری پارٹی سندھ کے رہنماء رشید سدایو اور ریڈ ورکر فرنٹ کے رہنما لیاقت کلمتی نے بھی خطاب کیا۔

سب سے آخر میں پروگریسیو یوتھ الائنس کراچی کے آرگنائزر فارس راج نے بات کرتے ہوئے کہا کہ انسانی تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے جو صدیوں پر محیط ہے۔ شاہ عنایت شہید بھی اسی جدوجہد کے ایک لمحے میں ایک استاد،رہنما اور جنگجو بن کر ابھرا۔ مگر طبقاتی کشمکش شاہ عنایت سے پہلے بھی جاری تھی اور آج بھی جاری ہے۔ مگر آج اس جدوجہد کا کردار بین الاقوامی ہوچکا ہے۔ اس لیے کراچی اور پاکستان کے نوجوانوں کو اپنی جدوجہد کو ملک بھر کے محنت کشوں کی تحریک کے ساتھ جوڑنا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا حکمرانوں کے منصوبے مزدوروں کے لیے مقتل گاہ بنتے جا رہے ہیں۔ گوادر میں محنت کشوں کا قتل عام پہلا یا آخری واقعہ نہیں ہے۔ انہوں نے سی پیک پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے سے چینی اشرافیہ کے سامراجی عزائم کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ حکمران سی پیک کے منصوبے سے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ کمیشن حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ محنت کشوں کے حالات زندگی میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑھنے والا۔انہوں نے نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ انقلابی سوشلزم کے نظریات کے شعور سے لیس ہوں۔کیوں کہ یہی واحدراستہ ہے جو ہمیں ہر طرح کی غلامی سے نجات دلا سکتا ہے ۔

تقریب کے اختتام پر گوادر میں محنت کشوں کے قتل عام کے خلاف ریلی بھی نکالی گئی جس میں شرکا نے حکمرانوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.