|رپورٹ: آصف لاشاری|
6 نومبر بروز اتواردن دو بجے پروگریسو یوتھ الائنس کے زیر اہتمام دوسرے سٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا جس کا عنوان ’’نوجوانوں کے مسائل اور ان کے حل کی جدوجہد‘‘ تھا۔راول اسد نے سٹڈی سرکل کو چئیر کیا اور نوجوانوں کے کام کی اہمیت کے حوالے سے بات رکھی ۔
موضوع پر بحث کا آغاز آصف لاشاری نے کیا اور نوجوانوں کے مسائل پر بات رکھتے ہوئے کہا کہ چاہے محنت نوجوان محنت کش ہوں یا طلبہ تمام ہی غربت بے روزگاری، مہنگائی اور لاعلاجی کا شکار ہیں۔ دن بدن تعلیمی اخراجات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سرکاری و پرائیویٹ کالجز اور یونیورسٹیاں دن بدن فیسوں میں اضافہ کرتی جا رہی ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں فیسوں میں کئی سو گنا اضافہ ہو چکا ہے اور فیسوں میں اضافے کے ساتھ مہنگائی بھی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور والدین اور طلبہ ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی میں تعلیم کا حصول اب خواب محسوس ہوتا ہے۔ تعلیمی اور امتحانی نظام انتہائی تباہی و بربادی کا شکار ہے۔
حالیہ انٹرمیڈیٹ کے نتائج میں اس نظام کا پول کھل کر سامنے آ گیا ہے جہاں بڑے پیمانے پر طلبہ کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا اور طلبہ اس ناانصافی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نظر آئے ہیں۔ آبادی کے تناسب سے ملک میں پرائیویٹ و سرکاری کالجز اور یونیورسٹاں انتہائی کم ہیں اور اس نظام کے پاس سب کو تعلیم دینے کی صلاحیت ہی موجود نہیں ہے۔ پرائمری لیول میں داخلہ لینے والے کل طلبہ کا صرف دو فیصد ہی یونیورسٹیوں تک پہنچ پاتا ہے باقی 98% فیصد اس نظام کا شکار بنتے ہیں۔ ملک میں اس وقت ڈھائی کروڑ سے بھی زیادہ بچے سکولوں سے باہر ہیں اور محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ اور دوسری طرف نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں لیے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں مگر روزگار کا نام و نشان موجود نہیں۔ ہمیں سب سے پہلے اپنے مسائل کو سمجھنا ہوگا اور یہ سوچنا ہوگا یہ سب مسائل کیوں ہیں تب ہی ہم ان مسائل کے حل تلاش کر سکتے ہیں۔
اس کے بعد راول اسد نے نوجوانوں کے کردار اور ماضی کی تحریکوں میں ان کی شمولیت پر بات رکھی۔ اس کے بعد توقیر، میر مزدک، آفاق جبار نے سوالات کیے اور بحث میں حصہ لیتے ہوئے ماضی کے انقلابات پر اورطلبہ اور محنت کشوں میں کام کرنے کے طریقہ کار پر بات رکھی۔ سٹڈی سرکل کے شرکاء نے آئندہ بھی اسی طرح سٹڈی سرکل جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔