|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ڈیرہ غازی خان|
گذشتہ روز ڈیرہ غازی خان پریس کلب کے سامنے عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے نوجواب طالبعلم مشعال خان کے بہیمانہ قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرے کی کال پروگریسیو یوتھ الائنس کی جانب سے دی گئی تھی۔ مظاہرین نے حکومت، یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور مشعال خان کے قاتلوں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ پچھلے کئی سالوں سے قانون ناموس رسالت کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیے جانے کے کئی واقعات سامنے آئے اور اگر غلط الزام لگانے والوں کو سزا دی جاتی تو یہ بھیانک واقعہ کبھی وقوع پذیر نہ ہوتا۔
اس واقعے سے جہاں ایک طرف مذہبی شدت پسند تنظیموں کا کردار سامنے آیا ہے اور نام نہاد سیکولر پارٹی کی زوال پذیری کا بھی اظہار ہوا ہے وہاں دوسری طرف یونیورسٹیوں میں موجود پروفیسرز مافیا کا کردار اور تحریک انصاف کی نام نہاد تبدیلی کا راگ بھی بے نقاب ہوا ہے۔ اس واقعے سے ریاستی سیکورٹی اداروں، فوج، پولیس کی کارکردگی کا پول بھی کھل کر سامنے آیا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں سیکورٹی کے نام پر تعلیمی اداروں کو جیل خانوں میں بدل دیاگیا ہے مگر یہ بھاری بھرکم سیکورٹی مشعل خان کی زندگی کو نہ بچا سکی۔ مشعل خان کے قتل نے سیکورٹی کے اقدامات کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ دراصل سیکورٹی کے یہ اقدامات ،پولیس ،فوج اور سیکورٹی گارڈز کے جتھے طلباء کی حفاظت کے لیے نہیں بلکہ ان کو خوفزدہ کرنے کے لیے ہے اور ان پر جبر قائم کرنے کے لیے ہے تاکہ طلبہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند نہ کرسکیں۔
پاکستانی ریاست طلبہ تحریک سے خوفزدہ ہے اور یونیورسٹیوں کا پروفیسر مافیا بھی اس تحریک کو محسوس کر رہا ہے۔ اس لیے پورے پاکستان میں پچھلے چند سالوں میں طلبہ کے گرد شکنجہ سخت کیا گیا ہے اور مشعل خان کا قتل بھی اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں سے ان کے خوف کا اظہار کرتا ہے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ مشعل کا قتل مذہب و ملحدیت کی جنگ کا شاخسانہ نہیں بلکہ یہ ایک طبقاتی وقوعہ ہے اور مشعال خان کو حقوق کی آواز بلند کرنے کے جرم کی پاداش میں قتل کیا گیا ۔ مظاہرین کاکہنا تھا کہ مشعال کی جدوجہد رکے گی نہیں بلکہ ہم اس جدوجہد کو لے کر آگے بڑھیں گے اور ظلم و جبر اور لوٹ کھسوٹ کے اس نظام کا خاتمہ کرکے مشعال کے قتل کا بدلہ چکائیں گے ۔
مشعل کی راہ ہماری ہے!
جنگ ہماری جاری ہے!