|رپورٹ: عطاء اللہ|
سامراجیت سرمایہ داری کی انتہائی منزل ہے، چینی اشرافیہ کا کردار سر بسر سامراجی ہے، سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہونے والی گلوبلائزیشن قومی، مذہبی، لسانی، علاقائی اور دیگر تعصبات کو زائل کرنے میں ناکام ہے۔ سامراجیت سے نجات کا واحد حل عالمی سوشلسٹ انقلاب ہے۔ نظریہ مسلسل انقلاب ہی پسماندہ ممالک کے محنت کشوں کا عالمی محنت کش طبقے سے جڑت کا واحد نظریاتی جواز ہے۔ ان خیالات کا اظہارشرکاء نے پروگریسیو یوتھ الائنس(PYA) کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ ایک روزہ مارکسی اسکول کے دوران کیا۔ اسکول کا انعقاد مورخہ 12 فروری بروز اتوار بمقام ارتقاء انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز، گلشن اقبال میں کیا گیا جس میں ممبران کے علاوہ کراچی یونیورسٹی اور ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے طلبہ نے بھی شرکت کی۔ اسکول دو سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلا سیشن ’’سامراجیت‘‘ کے موضوع پر تھا جس پر فارس نے لیڈ آف دی جبکہ دوسرے سیشن میں ’’نظریہ مسلسل انقلاب‘‘ پر انعم پتافی نے بحث کا آغاز کیا جبکہ دونوں سیشن کو ظریف رند نے چیئر کیا۔
سامراجیت پر بات کرتے ہوئے فارس کا کہنا تھا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ سرمایہ داری اپنی ابتدا میں ترقی پسندانہ کردار کی حامل تھی مگر جدلیات کا اصول ہے کہ چیزیں ایک وقت میں آ کر اپنی نفی میں بدل جاتی ہیں۔ انہوں نے ترقی پسند کردار کی حامل سرمایہ داری سے ایک سامراجی نظام کی شکل اختیا ر کرلینے کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مارکس نے ثابت کیا تھا کہ سرمایہ دارانہ طرزپیداوار کا لازمی نتیجہ ایک جانب دولت کے ارتکاز اور دوسری جانب بے پناہ غربت کی شکل میں برآمد ہو گا۔ دولت کے ارتکاز کی وجہ سے صنعت میں بڑے پیمانے پر پیداوار کا ارتکاز ہوا۔ جس سے کلاسیکل سرمایہ داری یعنی آزاد مقابلے کے دور کا خاتمہ ہوا اور اجارہ دارانہ سرمایہ داری کے دور کا آغاز ہوا۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فارس کا کہنا تھا کہ بینکوں میں سرمائے کے بے پناہ ارتکاز کی وجہ سے مالیاتی سرمائے نے صنعتی سرمائے پر فوقیت حاصل کر لی جس سے مالیاتی سرمایہ اجارہ دارانہ سرمایہ داری کی بنیاد بن گیا۔ فارس نے سامراج کی دیگر خصوصیات سرمائے کی برآمد، بڑی سرمایہ دار اجارہ داریوں کے بیچ منڈی کی تقسیم اور طاقتور سرمایہ دارانہ ملکوں کے بیچ دنیا کے بٹوارے پر بات کرتے ہوئے چینی حکمران طبقے کی سامراجی پالیسیوں کوتفصیل سے زیر بحث لایا۔
اس کے بعد سوالات اور کنٹری بیوشنز کا سلسلہ شروع ہوا۔ جلال جان کا کہنا تھا کہ چینی سامراج بیک وقت قدیم اور جدید سامراج کا انضمام ہے۔ جلال نے براعظم افریقہ میں چینی سرمایہ داروں کی ظالمانہ پالیسیوں کا نشانہ بننے والے افریقی محنت کشوں کی اذیتوں اور جدوجہد پر بھی روشنی ڈالی۔ تصورقیصرانی کا کہنا تھا کہ بعض پسماندہ ریاستیں بھی سامراجی عزائم رکھ سکتی ہیں انہوں نے پاکستان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ ریاست ایک طرف چین ، امریکہ اور دیگر سامراجی قوتوں کی آلہ کار ہے وہیں اپنے اندر مظلوم قومیتوں کا جیل خانہ بھی ہے اور خطے میں سامراجی عزائم رکھتی ہے۔ تصور نے افغانستان کی مثال دیتے ہوئے اپنی بات کو مزید واضح بھی کیا کہ کس طرح پاکستانی ریاست افغانستان کے اندرونی معاملات پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ ثنا ء زہری کا کہنا تھا کہ گڈانی واقعہ سامراجی بربریت کی ایک مثال ہے ۔ انہوں نے چینی اشرافیہ کی لوٹ کھسوٹ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ریکوڈک کے ذخائر پر قبضے کے لیے چینی کمپنیوں نے اپنی حریف جرمن کمپنیوں کو مقابلے سے دستبرادر ہونے پر مجبور کیا اور جرمن کمپنیوں کی نسبت چینی کمپنیوں نے پاکستانی ریاست کو منافعے میں حصہ بھی کم دیا جس سے چینی اشرافیہ کی طاقت اورپاکستانی ریاست کے اندر تک سرایت کرجانے کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ پارس جان نے آخری کنٹری بیوشن کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں چینی معیشت کی ترقی کی وجہ سے چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کر ابھرا ہے جس کی وجہ عالمی سطح پر قوتوں کا پرانا توازن ڈولنا شروع ہو چکا ہے اور یہی وجہ ہے آج دنیا میں سامراج کی بحث پھر سے اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 1949ء کے انقلاب کی وجہ سے چین میں جدید صنعت کے لیے سازگار انفرااسٹرکچر کی تعمیر ممکن ہو سکی تھی جس کی وجہ سے ماؤ کی وفات کے بعد چینی حکمران طبقہ عالمی سرمایہ داری کو مشروط بنیادوں پر چین میں خوش آمدید کہنے کے قابل تھا۔ جس کی وجہ سے چین دنیا کی سب سے بڑی ورکشاپ بن کر ابھرااور پوری دنیا میں چین کی ارزاں مصنوعات کی دھاک بیٹھ گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ سرمایہ داری کے موجودہ نامیاتی بحران میں چینی سرمایہ کاری سے کسی قسم کی ترقی پسندی کا کردار ادا کرنے کی توقع رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ جو لوگ اس مضحکہ خیز خوش فہمی کا شکار ہیں انہیں افغانستان میں طالبان کے ساتھ چینیوں کے حالیہ معاشقوں اور پاکستانی جنونی ملاؤں پر مجوزہ پابندیوں کو سبوتاژ کرنے کی چینی کاوشوں کے بعد محنت کش طبقے اور مارکسی نظریات کا غدار ہی کہا جا سکتا ہے۔ آخر میں بحث کو سمیٹتے ہوئے فارس کا کہنا تھا کہ سرمایہ داری کے تحت ہونے والی گلوبلائزیشن ایک آگے کی جانب قدم ہے مگر یہ ساتھ ہی محدود بھی ہے جس کا اظہارترقی یافتہ یورپ اور امریکہ میں بھی قومی ، لسانی اور مذہبی تعصبات کے سطح پرنمودار ہونے کی شکل میں ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سرمایہ داری کی تاریخی متروکیت انسانیت کے لیے ایک مسلسل اذیت اور وحشت ہے اور ایک عالمی سوشلسٹ انقلاب ہی انسانیت کی بقاء اورتمام مسائل کا حل ہے۔
اس کے بعد دوسرے سیشن کا آغاز ہوا۔ انعم پتافی نے نظریۂ مسلسل انقلاب پربحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ مارکسزم کوئی جامد و ساکت نظریہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسی سماجی سائنس ہے جو جدلیاتی مادیت کے بنیادی اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے وقت، جگہ اور معروضی صورت حال کے مطابق سماج کا تجزیہ کرتی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ مارکس اور اینگلز کی وفات کے بعد لینن اور ٹراٹسکی کا کام مارکسزم کے نظریاتی خزانے میں بیش بہا اضافہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سرمایہ داری کے سامراجی کردار کے سبب پسماندہ اور تاخیر سے سرمایہ داری میں داخل ہونے والے ملکوں کے سرمایہ دار طبقے کا کردار عالمی حکمران طبقے کی اطاعت اور غلامی سے مشروط ہو کر رہ گیا جس کی وجہ سے وہ کسی بھی طرح کا آزادانہ اور ترقی پسندکردار ادا کرنے سے اپنی ابتداء ہی میں محروم تھا اور یہی وجہ ہے کہ بیسیویں صدی میں بننے والی قومی ریاستوں میں وہاں کا سرمایہ دار اور حکمران طبقہ کہیں بھی قومی جمہوری انقلاب کے بنیادی فریضوں کی تکمیل آج تک مکمل نہیں کر سکا کیوں کہ تاریخی طور پر وہ تاخیر زدہ اور تکنیکی اعتبارسے ترقی یافتہ دنیا کے حکمران طبقے سے بہت پست تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کی بوژوازی اور حکمران طبقے کی نااہلی کی وجہ سے قومی جمہوری انقلاب کے بنیادی فریضوں کی تکمیل کی ذمے داری تاریخی طور پر وہاں کے محنت کشوں پر عائد ہوئی۔ اور اسی صورت حال کے پیش نظر ہی ٹراٹسکی نے نظریہ مسلسل انقلاب کو پیش کیا جو پسماندہ ملکوں کے محنت کشوں کی عالمی محنت کش طبقے سے جڑت کاواحدنظریاتی جواز ہے۔
اس کے بعد سوالات کے لیے وقفہ کیا گیا اور کنٹری بیوشن کا سلسلہ شروع ہوا۔ صمد کا کہنا تھا کہ سٹالنسٹوں کا شیوہ ہے کہ جب بھی محنت کشوں کی انقلابی تحریکیں ابھرتی ہیں وہ اس سے انقلاب کا پہلامرحلہ قرار دیتے ہیں جس سے ان کی مراد سرمایہ دارانہ انقلاب ہوتا ہے اور تاریخ گواہ ہے اپنی نظریاتی زوال پذیری کی وجہ سے سٹالنسٹوں نے دنیا میں کئی انقلابات کو زائل کیا ہے اور ان کا دوسرا مرحلہ کبھی نہیں آیا۔ ظریف کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں ٹراٹسکی کے عظیم کام اور جدوجہد سے ہمارے نوجوان بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ہم ایک عالمی گاؤں یعنی گلوبل ولیج میں رہ رہے ہیں اور دنیا سے کٹ کر کوئی بھی قوم اور ملک نہیں رہ سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے محنت کشوں کی آزادی عالمی محنت کش طبقے کی آزادی سے ہی مشروط ہے اوراس آزادی کو منظم جدوجہد کے بغیر نہیں حاصل کیا جا سکتا اور نظریہ مسلسل انقلاب کے بغیر انقلابی جدوجہد کو ملکی اور عالمی سطح پر منظم بھی نہیں کیا جا سکتا۔
ارشاد غنی نے کنٹری بیوشن کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان مشترکہ اور ناہموار ترقی کی بہترین مثال ہے جہاں اربوں روپے کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے مگر دوسری طرف لوگوں کو پینے کا پانی تک میسر نہیں۔ ثناء زہری اور پارس جان نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ مارکس کی پیش گوئی کے مطابق سرمایہ داری نے ایک عالمی منڈی قائم کی جس سے دنیا دوواضح طبقات سرمایہ دار اور محنت کشوں میں تقسیم ہو گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی معیشت کل ملکوں کی معیشتوں کا حاصل جمع نہیں ہے بلکہ کل ملکوں کی معیشتوں کے مجموعے سے بڑی ہے۔ اور یہی اصول عالمی محنت کش طبقے پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان اور دیگر پسماندہ ملکوں کے محنت کش طبقے کی تحریک کو عالمی محنت کش طبقے کی تحریک کے ساتھ منسلک کیا جائے اور اس عمل کی نظریہ مسلسل انقلاب ہی سب بہتر رہنمائی کرتا ہے۔ آخر میں انعم پتافی نے سوالات کی روشنی میں بحث کا سم اپ کیا۔اس کے بعد انٹرنیشنل گا کراسکول کا اختتام کیا گیا۔