|رپورٹ: صدیق جان|
پروگریسو یوتھ الائنس کے زیر اہتمام 13اگست کو پختونخوا ملاکنڈ ایریا میں ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا۔ سکول کا ایجنڈا دو موضوعات پر مشتمل تھا۔پہلا سیشن عالمی اور پاکستان کے تناظر کے حوالے سے تھا جس پر صدیق جان نے لیڈ آف دی۔ صدیق نے کہا کہ آج ہم ایک تبدیل شدہ عہد میں رہ رہے ہیں جہاں پرماضی کے برعکس سماج میں مکمل پولرائزیشن ہو رہی ہے۔پوری دنیا میں جہاں پر ہمیں ایک طرف بائیں بازوں کی سیاست ابھرتی ہوئی نظر آرہی ہے تو دوسرے طرف دائیں بازوں کی سیاست بھی ابھرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
عالمی سیاسی و معاشی صورتحال کو زیر بحث لاتے ہوئے کامریڈ صدیق نے عالمی تناظر کا آغاز برطانیہ کی صورتحال سے کیا جہاں پر حال ہی میں الیکشن ہوئے ہیں جس میں جیرمی کاربن نے حیران کن کامیابی حاصل کی۔ جیرمی کاربن کو اپنی بائیں بازو کی ریڈیکل پوزیشن کی وجہ سے خصوصاً نوجوانوں میں بہت پذیرائی ملی اور اس کے بعد لاکھوں لوگوں نے لیبر پارٹی کی ممبر شپ لی۔ اگرچہ لیبر پارٹی کے اندر بلیرائٹ دھڑا نہیں چاہتا تھا کہ جیرمی کوربن کو زیادہ پذیرائی ملے۔ لیکن اس کے باوجود پچھلے الیکشنوں کے مقابلے میں اس بار لیبر پارٹی نے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ ٹوری پارٹی الیکشن کا جوا ہارنے کے بعد بریگزٹ کے معاملے پر تضادات کا شکار ہے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ ٹوری حکومت قبل از وقت ختم ہو جائے اور دوبارہ الیکشن ہوں۔ اس طرح صدیق نے فرانس، یونان اور سپین کے حوالے سے بات رکھی کہ کس طرح ان ممالک میں نئے پارٹیوں کا ظہور ہوا اور جہاں پر لوگ نئے متبادل کی تلاش میں ہیں۔
اسی طرح صدیق نے امریکہ کے بارے میں بات رکھی اور کہا کہ امریکہ ایک کمزور ہوتا سامراج ہے اور جس کے وجہ سے امریکہ کے اندرونی تضادات بڑھ رہے ہیں۔ آج امریکی سامراج اس طرح پوری دنیا پر اپنی گرفت نہیں رکھ سکتا جس طرح ماضی میں کرتا آیا ہے۔ امریکی سامراج کی کمزوری کی وجہ سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس خلا کو چین اور روس پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے باعث عالمی تعلقات میں تیزی سے تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ اس طرح چین جو کہ بہت سارے ممالک میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور پاکستان میں بھی سی پیک کے نام سے سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ان منصوبوں کے اگر چہ ایک طرف مالی اور تجارتی فوائد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہے ہے لیکن پس پردہ چین کے سامراجی مفادات بھی ہیں۔ اسطرح چین ایک ایسے وقت میں سامراجی طاقت بن کر ابھر رہا ہے جب سرمایہ داری ایک گہرے بحران کا شکار ہے۔ چین کی معیشت خود تنزلی کا شکار ہے۔ ایسے میں چین کوئی ترقی پسند کردار ادا نہیں کر سکتا۔
کامریڈ صدیق نے مشرقی وسطیٰ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مشرقی وسطیٰ میں انتشار اور خونریزی مزید بڑھے گی اور نئی سامراجی پراکسیز ابھریں گی جس کے وجہ سے مزید خونریزی اور عدم استحکام بڑھے گا۔ اس طرح سعودی عرب کے معاشی بحران کا اظہار سعودی شاہی خاندان میں تضادات کا باعث بن رہا ہے۔ حال ہی میں محمد بن نائف کے ولی عہد کے عہدے سے معزولی اور محمد بن سلمان کا ولی عہد بننا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
کامریڈ صدیق نے کہا کہ پاکستان کی سیاست انتہائی گھٹیا اور تعفن زدہ ہو چکی ہے۔
حکمران طبقے کی اپنے مفادات کے لئے لڑائیاں شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف عوام انتہائی پسماندگی میں وقت گزار رہے ہیں۔ بے روزگاری، مہنگا ئی اور بدامنی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ جبکہ ریاست عوام کا کوئی بھی بنیادی مسئلہ حل کرنے میں ناکام ہے۔ لیڈ آف کے بعد سوالات کیے گئے۔ سوالات کے بعد باسط، اظہار، عابد، نوید، چراغ حسین اور اسفندیار نے بحث میں حصہ لیا۔ اس کے بعد صدیق نے سیشن کا سم اپ کیا۔
دوسرا سیشن بالشویک انقلاب کے سو سال کے حوالے سے تھا۔ لیڈآف اسفندیار نے دی۔ اسفند نے کہا کہ بالشویک انقلاب تاریخ کا ایک عظیم واقعہ تھا جس نے دنیا کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔ اسفند نے 1917ء کے عظیم واقعات کا احاطہ کیا ااور کہا کہ کس طرح ایک پسماندہ ملک میں ایک سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا۔ بالشویک انقلاب کا تجربہ پوری دنیا کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے لئے اسباق کا حامل ہے جس سے سیکھتے ہوئے آنے والے دنوں میں محنت کش طبقہ انقلاب کے راستے پر چلتے ہوئے ایک سوشلسٹ دنیا کی تعمیر کر ے گا۔
اسفند نے سوویت یونین کی حاصلات کے بارے میں بات جرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی تاریخ کا پہلا سوشلسٹ انقلاب ایک پسماندہ ملک میں برپا ہوا جس نے ایک پسماندہ خطے کو پسماندگی کے دلدل سے نکال کر ایک سپر پاور بنا دیا۔ بے روزگاری کا مکمل خاتمہ کیا گیا۔ مفت تعلیم اور صحت مہیا کی گی۔ پورے یورپ سے زیادہ سائنسدان سویت یونین نے پیدا کیے۔ عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا خاتمہ کیا گیا ۔ عورتوں کو گھریلو کام سے نجات دلائی گئی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں بے پناہ ترقی کی گئی۔لیکن سٹالنسٹ بیوروکریسی کی شکل میں سوویت یونین پر ایک ردانقلابی پرت حاوی تھی افسر شاہانہ ٹولے کا قبضہ ہوگیا جس نے مزدور جمہوریت کا خاتمہ کیا اور مزدوروں کی پیدا کی گئی دولت کو اپنے عیاشیوں کے لئے استعمال کیا۔ یہی وجہ تھی کا ایک مزدور جمہوریت کے بغیر ایک افسر شاہی کے کنٹرول کی وجہ سے پیداواری قوتوں کا دم گھٹنے لگا اور سویت ونین کا انہدام ہوا۔
اسفند نے کہا کہ آج پوری دنیا کے سرمایہ د اروں کے تجزیہ نگار اور سکالرز سوویت یونین کے ناکامیوں پر بحث کر رہے ہیں۔ سوویت یونین کے خاتمے پر تاریخ کا خاتمہ قرار دیا۔ اور سرمایہ داری کو ازلی بنا دیا۔ لیکن ہم نے چند سالوں کے عرصے کے بعد دیکھا کہ ان کے تمام دعوے غلط ثابت ہوئے اور آج سرمایہ دارانہ نظام اپنے تاریخی بحران سے گزر رہا ہے۔ آج پھر دنیا پر سوشلزم کا بھوت منڈلا رہا ہے۔
لیڈ آف کے بعد سوالات پوچھے گئے۔ سوالات کے بعد صدیق نے کنٹربیوشن کی۔ سیشن کا سم اپ اسفندیار نے کیا۔