|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ڈی جی خان|
پروگریسو یوتھ الائنس کے زیر اہتمام 4مارچ 2018ء بروز اتوار کو ڈیرہ غازی خان میں ایک روزہ مارکسی سکول منعقد کیا گیا۔ سکول کا ایجنڈا کارل مارکس کی شہرہ آفاق تصنیف ’داس کیپیٹل‘ کا ساتواں باب ’’سرمائے کے ارتکاز کا عمل‘‘ تھا۔ سکول کی صدارت توقیر نے کی جبکہ موضوع پر بحث کا آغاز آصف لاشاری نے کیا۔
کامریڈ آصف نے روپے کی سرمائے میں تبدیلی، قدر زائد کی پیداوار پر بات رکھی اور کہا کہ سرمایہ دار دوسری اشیاء کے ساتھ مزدور کی قوت محنت بھی خریدتا ہے اور قوت محنت ایسی جنس ہے جس کے اندر نئی قدر پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور سرمایہ دار پیداواری عمل کے اندر محنت کش کو دی گئی اجرت سے فاضل کام کراتا ہے اور مزدور کی لوٹی گئی یہی محنت قدر زائد پیدا کرتی ہے جس سے سرمایہ داروں کے منافعوں کا تعین ہوتا ہے۔اس کے بعد آصف نے سرمائے کے ارتکاز کے عمل پر بات رکھی۔آصف کا کہنا تھا کہ سرمائے کے پیدا ہونے کیلئے سب سے پہلے بڑی مقدار میں موجود رقم کا ہونا ضروری ہے جس کے ذریعے سرمایہ دار خام مال ، مشینری اور محنت کش کی قوت محنت کو خریدتا ہے اور پیداواری عمل میں قدر زائد حاصل کرتا ہے۔مگر یہ عمل یہاں پر رکتا نہیں ہے کیونکہ ہر معاشی دورانیے کا اختتام دوسرے کا آغاز ہوتا ہے۔سرمائے کے بطور سرمائے کے رہنے کیلئے قدر زائد سے ایک بڑا حصہ دوبارہ پیداواری عمل میں لگانا ناگزیر ہوتا ہے۔ اس عمل میں سرمایہ دار کے بطور سرمایہ دار کے رہنا اور پرولتاریہ کے بطور پرولتاریہ کے رہنا ایک لازمی امر بن جاتا ہے۔ سرمائے کے ارتکاز کے محنت کش طبقے پر اثرات پر بات رکھی اور کہا کہ جہاں ایک طرف چند ہاتھوں میں سرمائے کا ارتکاز ہوتا جاتا ہے تو دوسری جانب غربت، محرومیوں اور مصائب کا ارتکاز ہوتا جاتا ہے۔ بڑے پیمانے کی بے روزگاری سرمایہ داری اور سرمائے کے مسلسل بڑھنے کی ناگزیر ضرورت ہے۔
لیڈ آف کے بعد کامریڈ فضیل نے بحث میں حصہ لیا اور سرمائے کے قدیمی ارتکاز (Primitive Accumulation)پر بات رکھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ سرمائے کی ابتداء صرف پیداواری عمل سے نہیں ہوئی بلکہ سرمائے کا آغاز قتل و غارت اور درندگی سے عبارت ہے۔نئے بورژوا طبقے نے بڑے پیمانے پر قتل عام کیا، لوگوں کو زمینوں سے بے دخل کیا گیا، نو آبادیوں کا صفایا کیا گیا، کروڑوں سیاہ فاموں کو غلام بنایا گیا۔ کنٹریبیوشن کے بعد آصف نے سم اپ کیا۔ سکول میں 12نوجوانوں نے شرکت کی۔