|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بلوچستان|
پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے آج بلوچستان یونیورسٹی میں’’سماجی ومعاشی بحران اور حل‘‘ کے موضوع پر ایک لیکچر پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ لیکچرپروگرام میں 30 کے قریب طلبہ نے شرکت کی جن میں 3 طالبات بھی شامل تھیں۔ لیکچر پروگرام کا آغاز صبح 11:30 بجے ہوا۔ پروگرام کا آغازکرتے ہوئے کامریڈ دستگیر نے مختصر تعارف کے بعد پروگریسو یوتھ الائنس سے انعم پتافی کو موضوع پر دعوت خطاب دی۔
طلبہ سے بات کرتے ہوئے انعم نے سرمایہ دارنہ نظام کے نامیاتی بحران اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل بالخصوص تعلیم، صحت، بیروزگاری اور دہشت گردی پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ نوجوانوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انعم نے کہا کہ پچھلے ایک لمبے عرصے سے تعلیمی ادارے پورے پاکستان میں سیکیورٹی کے نام پر جیل خانے بن چکے ہیں جبکہ اس کے باوجود مشال خان کا بہیمانہ قتل، باچا خان یونیورسٹی اور APS کا واقعہ رونما ہوئے۔ طلبہ جب یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ہیں تو وہ ڈھیر سارے خواب لے کر آتے ہیں جبکہ دوسری طرف اُن کوفیسوں میں اضافہ، ہاسٹلوں میں رہائشی سہولیات کا فقدان اور ٹرانسپورٹ سمیت دیگر بے تحاشا مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈگری لینے کے بعد اُنہیں روزگار کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں اور اس سارے صورتحال میں وہ بیگانگی کے شکار ہو کر معاشرے میں ایک تعمیری کردار ادا کرنے کے بجائے تخریبی کردار ادا کرتے ہیں جس سے عام لوگ تعلیم سے بیزاری کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔اس کے علاوہ علاج معالجہ کے سہولیات صرف حکمرانوں کو میسر ہیں جو کہ زکام کے علاج کے لیے بھی باہر ممالک سے علاج کرواتے ہیں۔جبکہ اُسی معاشرے میں لوگ قابلِ علاج بیماریوں کا علاج میسر نہ ہونے کی وجہ سے مرتے ہیں ۔ان سارے مسائل کے زیر اثر دنیا بھر میں طبقاتی انتشار بڑھتا جا رہا ہے جس کی واضح مثال آئے روز کے ہڑتال اور احتجاج ہیں جو کہ سماج کے اندر اُس خلفشار کو مزید تیز کرتا رہتا ہے۔ان تمام مسائل سے چھٹکارا پانے کے لیے طبقاتی بنیادوں پر لڑنے کی ضرورت ہے اور ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرتے ہوئے ان تمام مسائل سء نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔
اس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ پروگرام میں شریک طلبہ نے سولات کی بھرمار کردی جو کہ انتہائی خوش آئند امر تھا۔ سلسلہ بس سولات تک نہیں رکا بلکہ شریک طلبہ نے موضوع کے حوالے سے اپنے خیالات کا بھر پور اظہار بھی کیا۔ پروگریسو یوتھ الائنس کی طرف سے کامریڈ فضیل اصغر نے تفصیل سے بات رکھی جس میں اُنہوں نے کہا کہ سب سے پہلے ہمیں اس سرمایہ دارانہ نظام کو سمجھنا ہو گا جس میں آج ہم زندہ ہیں۔ یہ امیر اور غریب کا نظام ہے جس میں چند مٹھی بھر سرمایہ دار پورے سماج کی محنت کا استحصال کرکے اپنے دولت ڈھیروں میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں اور سماج کی ایک وسیع اکثریت غربت، بیروزگاری، لاعلاجی، دہشت گردی اور جنگوں کا نشانہ بن رہی ہے۔ یہ نظام اپنی طبعی زندگی پوری کر چکا ہے اور قریب المرگ ہے، کیونکہ یہ ظالم نظام اب حاصلات دینے کے بجائے چھینتا جا رہا ہے جسکی وجہ سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں محنت کش طبقہ سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو رہا ہے۔ نام نہاد عوامی پارٹیاں حکمران طبقے کی بی ٹیم بن چکی ہیں۔ فضیل نے مزید کہا کہ ان تمام مسائل کا حل صرف اور صرف مارکسزم کے سائنسی اور جدید نظریات دیتے ہیں، وہی نظریات جن کو حکمران طبقے نے سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ ہی دفن کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ آج ایک بار پھر سرمایہ داری کے تاریخی بحران میں یہ نظریات اہمیت حاصل کررہے ہیں۔ مارکس نے ٹھیک آج سے 150 سال قبل سرمایہ داری کے موجودہ بحرانات کے حولے سے نشاندہی کی تھی جو کہ آج تاریخ کے کسوٹھی پر سچ ثابت ہو رہا ہے۔
اس کے بعد کامریڈ انعم نے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہم تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں تو اس میں شروع سے طبقاتی کشمکش کا سامنا ہے جو کہ ظالم،مظلوم، حاکم، محکوم، سرمایہ دار، مزدور کی شکل میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔سرمایہ داری انسانیت کو مزید ترقی دینے سے قاصر ہے۔ اب ہمیں ایک ایسے نئے سماج کے لیے لڑنا ہوگا جہاں پر طبقات کا کوئی وجود نہیں ہو گا اور یہ کام ناممکن بھی نہیں ہے اسکے لیے سب سے پہلے طبقاتی بُنیادوں پر مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور جب لوگوں میں طبقاتی جڑت کے ساتھ مسائل کو سمجھنے اور انکا حل سمجھ آجائے تب جاکر دنیا بھر میں محنت کشوں کے تحریکوں کو منزلِ مقصود تک پہنچانا ایک انقلابی پارٹی کا کام ہے جسکی تعمیر میں ہم لگے ہیں۔اور اس بربریت کو ختم کر کے ایک سوشلسٹ سماج کے روشنی سے منور کرینگے۔