|رپورٹ: پروگریسیو یوتھ الائنس، کراچی|
پاکستان میں انگڑائیاں لیتی طلبہ تحریک نئے پلیٹ فارم کی متلاشی ہے، ماضی کی تمام طلبہ تنظیمیں ناکارہ ہو چکی ہیں،اُن کی جگہ اب تاریخ کے کوڑے دان میں ہے۔پروگریسیو یوتھ الائنس کی جدوجہد کامقصد طلبہ کو ملک گیر سطح پر سائنسی نظریات اور لائحہ عمل کے ذریعے ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنا ہے۔سوشلزم کے علاوہ دیگر تمام نظریات طلبہ تحریک کوگمراہ کرنے کاسبب بنیں گے۔حکمران قومیت، لسانیت اور فرقہ وارانہ تعصبات کے استعمال کے ذریعے طلبہ کومنقسم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں، جس کے خلاف جرأت مندی سے جدوجہد کرنے کی ضروت ہے۔
ان خیالات کا اظہار مقررین نے پروگریسیو یوتھ الائنس کراچی کے زیراہتمام منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیمینار کا انعقاد مورخہ 31دسمبر 2017، بروز اتوار بوقت4بجے سہ پہر کیا گیاجس میں کراچی کے مختلف تعلیمی اداروں سے طلبہ نے شرکت کی۔انعم پتافی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری نسلوں نے کراچی شہر الطاف حسین کی کال پر بند ہوتے ہوئے دیکھا ہے جب کہ اُس سے پہلے اس شہر میں ایک طالب علم رہنما معراج محمد خان کی ایک کال پر یہ شہر بند ہوجایا کرتا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ وقت قریب آ پہنچا ہے جب دوبارہ اس شہر کے طلبہ اپنے مسائل کے حل کے لیے ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہو ں گے۔ انہوں نے حالیہ دنوں میں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی طلبہ تحریک پر بات کرتے ہوئے کہا 14دن تک طلبہ اپنے حقوق کے لیے ڈٹے رہے اور بالآخر انتظامیہ نے مجبور ہو کر طلبہ کے مطالبات کو تسلیم کیا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر لڑا جائے تو اپنے حقوق حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کے طالب علم وسیم پلیجو کا کہنا تھا کہ دور جدید میں ساری دنیا میں طلبہ تحریک کی شاندار تاریخ موجود ہے۔ انہوں اس وقت ایران میں چلنے والی جابر حکمرانوں کے خلاف تحریک پربات کرتے ہوئے کہا کہ اس کا آغاز بھی تہران یونیورسٹی سے ہوا۔ ان کاکہناتھا کہ پاکستان میں معیار تعلیم انتہائی پست ہے۔ میمن گوٹھ لاء کالج کے طالب علم عابد کا کہنا تھا کہ ادارے میں کسی بھی طرح کی سرگرمیوں میں طالب علموں کو شریک نہیں کیا جاتا۔ ٹرانسپورٹ کافقدان ہے، جبکہ ادارے میں اقرباء پروری عروج پر ہے۔ ایسے طلبہ جو سار ا سال میں ایک دن بھی ادارے میں نہیں آتے اُن کو پاس کردیا جاتا ہے جبکہ سارا سال ادارے میں حاضر رہنے والے طالب علم فیل ہو جاتے ہیں۔
کراچی یونیورسٹی کے طالبعلم اور اسٹوڈنٹس پاور کے رہنما یٰسین کا کہنا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے دیگر مسائل کے ساتھ شعبہ تعلیم بھی روبہ زوال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پورے ملک میں بے شمار مسائل ہیں مگر اصل سوال یہ ہے کہ ان مسائل کو حل کیسے کیا جائے۔ فارس راج نے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں طلبہ تحریکوں کی ایک بہت بڑی تاریخ موجود ہے۔ تاہم ماضی کی ان تحریکوں کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ نظریاتی زوال پذیری تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ حکمران نجکاری کی پالیسی کے ذریعے تمام تعلیمی اداروں کی نیلامی کرنے جارہے ہیں جس سے پاکستان کے طلبہ کسی بھی طور قبول نہیں کریں گے،جس کے نتیجے میں آنے والے دنوں میں بہت بڑی تحریکیں ابھریں گی جن کی ماضی سے کوئی مثال نہیں دی جاسکے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ طلبہ تحریک کو سوشلزم کے نظریات سے لیس کیا جائے۔ وگرنہ حکمران طلبہ کو فرقہ واریت، قومیت، اور دیگر تعصبات کے ذریعے تقسیم کریں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ملک گیر سطح پر طلبہ کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنے کے لیے ہمیں ایک میگزین بھی شائع کرنا چاہیے جو طلبہ کے مسائل کو اجاگر کرے اور اُن کی درست سمت میں رہنمائی کرے۔ اس موقع پر بلوچستان سے آئے ہوئے طالب رہنما سیف الاسلام نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے مسائل بہت زیادہ ہیں اور تعلیم کے میدان میں بھی بلوچستان کے نوجوان بنیادی نوعیت کی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔ آخر میں پارس جان نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورت حال میں نظریے کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے، سوشلزم کے نظریے کے تحت ہی طلبہ تحریک سے لے کے مزدور تحریک اور قومی آزادی کی تحریکوں تک سب کو ایک تناسب میں اور ایک ربط میں منظم کیاجاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ نظام اور ریاست کے ہوتے ہوئے نہ تو طلبہ کے مسائل کبھی حل ہو سکتے ہیں اور نہ یہاں کوئی دیگر مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔