|رپورٹ: فارس راج|
بھگت سنگھ برصغیر کی تاریخ کا مشترکہ ورثہ ہے۔ حکمران طبقات کی مرتب کی ہوئی تاریخ جھوٹ پر مبنی ہے۔ برصغیر کے اصل ہیرو منگل پانڈے، بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی ہیں۔ مارکسزم کے آفاقی نظریات ہی منقسم برصغیر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو طبقاتی یکجہتی کی لڑی میں پرو سکتے ہیں۔ ہم عالمی محنت کش طبقے کی تحریک کا اٹوٹ انگ ہیں۔ سوشلسٹ انقلاب ہی برصغیر کے مرجھائے چہرے کو عالمی دنیا میں پوری تروتازگی کے ساتھ پیش کر سکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے پروگریسیویوتھ الائنس کراچی کے زیراہتمام منعقدہ پروگرام کے دوران کیا۔
پروگرام کا انعقاد بھگت سنگھ شہید کی 86ویں برسی کے موقع پر 24 مارچ بروز جمعہ PMA ہاؤس صدر میں کیا گیا تھا۔ فارس راج نے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دیتے ہوئے مقررین اور شرکاء کے سامنے ’’موجودہ عہد میں عالمی سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد اور برصغیر کی طلبہ تحریک کا کردار‘‘ایجنڈا پیش کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ برصغیر کی صدیوں پر مبنی تاریخ میں یہاں مختلف مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کررہتے رہے اور مذہب کی بنیاد پر کوئی تعصبات موجود نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریز سامراج کے خلاف برصغیر کی قومی آزادی کی جدوجہد میں تمام مذاہب اور برصغیر کے مختلف علاقوں کے لوگ مل کر جدوجہد کرتے رہے جس کا سب سے بلند پیمانے پر اظہار 1857ء کی بغاوت ہند میں ملتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھگت سنگھ نے اسی جدوجہد کو زیادہ بلند پیمانے پر آگے بڑھایا جس میں انہوں نے برصغیر کی قومی آزادی کے ساتھ ساتھ طبقاتی استحصال سے چھٹکارے کے لیے بھی جدوجہد کی۔
پروگرام میں PYA لاہور سے ڈاکٹر ولید نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ اپنے خطاب میں ڈاکٹر ولید کا کہنا تھا کہ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی جدوجہد آج بھی برصغیر کے نوجوانوں کے لیے ایک Symbol ہے۔ ہمیں بھگت سنگھ کی جدوجہد سے جرات، قربانی اور عظیم مارکسی نظریات کو اپنانے کا سبق ملتا ہے اور انہی خطوط پر عمل پیرا ہو کر ہم آج بھی سرمایہ دارانہ نظام کی دی ہوئی ذلت اور بربادی سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔ وفاقی اردو یونیورسٹی میں PYA کے سرگرم کارکن عطاء اللہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ضیاء آمریت نے طلبہ سیاست پر شب خون ماراجس کی وجہ سے پاکستان میں طلبہ سیاست حکمران پارٹیوں کی دم چھلا بن کررہ گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکتی اور پاکستان کے نوجوان اور طالب علم اپنے سیاسی حق کو حاصل کر کے رہیں گے اور مارکسی نظریات ہی پاکستان کے نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کر سکتے اور درست پروگرام بھی فراہم کر سکتے ہیں۔
ریڈ ورکرز فرنٹ(RWF) حب چوکی کے رہنماء ثناء زہری نے اپنے ساتھیوں سمیت پروگرام میں شرکت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھگت سنگھ اکیلا نوجوان نہیں ہے جس نے انگریزوں کے جبر کو للکارا بلکہ برصغیرمیں ایسے سینکڑوں کردار ملتے ہیں جو آزادی کے لیے لڑے اور جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ راج گرو ، سکھ دیو اور دیگر بھی جدوجہد کے عظیم استعارے ہیں۔ اس کے بعد طالب علم رہنماء کامریڈ جینی نے حبیب جالب کی نظم ’’ظلمت کو ضیاء‘‘ گا کر سنائی جسے شرکاء نے بے حد سراہا۔ میزان کا کہنا تھا کہ APS پشاور میں حملے سے ہلاک ہونے والے بچوں کی ہلاکت انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے مگر ہمارے حکمران ان بچوں کو شہید اور دیگر مرتبے دے کر اپنی ناکامی کو چھپانا چاہتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف اس واقعے کو بنیاد بنا کر پورے ملک میں تعلیمی اداروں کو جیل بنا دیا گیا ہے۔ جو طلبہ کے شعور کی آزادانہ نشوونما میں رکاوٹ ہے۔ PYA کی رہنماء انعم نے اپنے خطاب میں برصغیر میں سوشلسٹ انقلاب کے لیے کی جانے والی جدوجہد کا ماضی، حال اور مستقبل کے تناظر میں تفصیل کے ساتھ بات کی۔
ان کا کہنا تھا کے برصغیر کے خونی بٹوارے کے 70 سال بعد بھی سرحد کے دونوں اطراف کے محنت کش عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں جو کہ سرمایہ دارانہ نظام اور یہاں کے حکمرانوں کی زوال پذیری اور تاخیر زدگی کا ثبوت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم برصغیر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو طبقاتی بنیادوں پر جوڑیں اور اس کام کے لیے مارکسی نظریات ہی رہنمائی کر سکتے ہیں۔
صدر تقریب PYA کے مرکزی جنرل سیکریٹری اور BSO پجار کے مرکزی آرگنائز ر ظریف رند کا کہنا تھا کہ پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے طلبہ تحریک ایک نئی انگڑائی لیتی ہوئی نظر آ رہی ہے جبکہ حالیہ عرصے میں ہم بھارت میں بھی طلبہ تحریک کا ایک ابھار دیکھ چکے ہیں، جس کوکنہیا کمار اور اس کے ساتھیوں نے لیڈ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ برصغیر کے طلبہ کو یہ بات سمجھنا ہوگی کے حکمرانوں کی جانب سے پڑھائی جانے والی سرکاری تاریخ جھوٹ پر مبنی ہے۔ برصغیر کے اصل ہیرو جناح اور گاندھی نہیں ہیں بلکہ منگل پانڈے اور بھگت سنگھ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کے اس جدید دور میں ہم مارکسی نظریات سے لیس ہو کر برصغیر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی مشترکہ تنظیموں کی تعمیر کے کام کا تیزی سے آگے بڑھائیں اور دنیا بھر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے ساتھ طبقاتی بنیادوں پر جوڑیں۔ پروگرام میں وفاقی اردو یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی، شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی لیاری، ایس ایم لاء کالج اور داؤ د انجینئرنگ کالج سے بھی طالب علموں نے بھی شرکت کی۔