|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کشمیر|
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں
تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
فیسوں میں اضافے، بیروزگاری کے خاتمے سمیت تمام طلبہ مسائل کے حل کے لئے طلبہ اور نوجوانوں کو خود جدوجہد کے میدان میں اترنا ہوگا۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جاری قومی آزادی کی تحریک کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ کشمیر اور خطے کی دیگر محکوم قومیتوں کی قومی آزادی کی جدوجہد کو حتمی فتح کے لئے خطے اور عالمی محنت کش طبقے کی تحریک کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ ریاست بنیادی ضروریات کی فراہمی میں مکمل ناکام ہوچکی ہے۔ تعلیم کے نام پر جاری کاروبار کو بند کیا جائے اور مفت تعلیم فراہم کی جائے۔ بیروزگاری اس وقت سب سے سنگین مسئلہ ہے اور ریاست سمیت تمام سیاسی پارٹیاں اس کا حل دینے سے قاصر ہیں۔ خواتین کے لئے تعلیم حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ خواتین کے ساتھ جاری امتیازی سلوک کا خاتمہ کیا جائے۔ طلبہ یونین پر پابندی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ طلبہ یونین پر پابندی کا فی الفور خاتمہ کرتے ہوئے طلبہ یونین کے الیکشن کروائے جائیں۔ ایک ایسے وقت میں پروگریسو یوتھ الائنس کا قیام جب روایتی پارٹیاں اور سیاست بحران کا شکار ہیں، خوش آئند امر ہے۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں طلبہ اور نوجوان مسائل کاشکار ہیں جس کی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ نظام کا تاریخی بحران ہے اور اس نظام کے خاتمے کے لئے عالمی طور پر طلبہ اور محنت کشوں کی جڑت انتہائی ضروری ہے۔ کشمیر میں بین الاقوامیت کے نظریات پر ایک تنظیم کا قیام قومی آزادی کی تحریک میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی غربت، مہنگی تعلیم، بیروزگاری، مہنگائی، لاعلاجی، دہشت گردی اوربھوک افلاس کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ عالمی سوشلسٹ انقلاب تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے 18اگست کو راولاکوٹ میں منعقد ہونے والے پروگریسو یوتھ الائنس کشمیر کے ’’آزادی کنونشن‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
راولاکوٹ میں منعقدہ پروگریسو یوتھ الائنس کشمیر کے اس کنونشن میں پونچھ یونیورسٹی، میڈیکل کالج راولاکوٹ، ڈگری کالج راولاکوٹ، ڈگری کالج تراڑ کھل، کوٹلی یونیورسٹی، بلوچ انٹر کالج، ہائیر سیکنڈری سکول کھائیگلہ، ڈگری کالج پلندری اور ڈگری کالج باغ کے طلبہ وفود سمیت ساڑھے چار سوسے زائدنوجوانوں نے شرکت کی۔ اس میں پورے پاکستان سے آئے سو سے زائد طلبہ اور نوجوانوں کے وفود بھی شامل ہیں۔ جن میں فیڈرل اردو یونیورسٹی کراچی، سندھ یونیورسٹی جامشورو، ڈگری کالج دادو، بیڈز سکھر، اسلامیہ یونیورسٹی بہالپور، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان، ایمرسن کالج ملتان، پشاور یونیورسٹی، اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد، یونیورسٹی آف لاہور اور دیگر شامل تھے۔ کنونشن میں شریک طلبہ اور نوجوانوں کا جوش و ولولہ قابل دید تھا۔ تین گھنٹے جاری رہنے والا یہ کنونشن آزادی کے نعروں سے گونجتا رہا۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض عبید ذوالفقار نے سرانجام دئیے۔
ایک ایسے وقت میں جب کشمیر کی روایتی طلبہ سیاست نظریات سے عاری ہو کر زوال پذیرہو رہی ہے اور طلبہ تنظیمیں شخصیت پرستی اور مفادات کی کھائی میں گرتی جا رہی ہیں یہ کنونشن طلبہ سیاست میں روشنی کی ایک کرن بن کر ابھر ا ہے۔ وادی کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک سے اظہار یکجہتی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کنونشن کا مقصد پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں طلبہ کے مسائل کو اجاگر کرنا اور ان کے حل کے لیے جدوجہد کا آغاز کرنا تھا۔ کشمیر کی رائج الوقت تمام سیاسی پارٹیاں اور ان کی طلبہ تنظیمیں ان مقاصد کو فراموش کر چکی ہیں اور ان کی سیاست کا مرکز محض ذاتی تشہیر یا مفادات کا حصول رہ گیا ہے۔ اسی لیے ان کی تقریبات میں نامی گرامی شخصیات کو بلا کر رسمی تقریریں کروائی جاتی ہیں اور ان شخصیات کے نام پر طلبہ کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ حقیقی نظریات اور طلبہ کے سلگتے ہوئے مسائل کی جدوجہد سے یہ کہہ کر کنارہ کشی اختیار کر لی جاتی ہے کہ معروضی حالات بہت سخت اور جمود کا شکارہیں اور ابھی جدوجہد کا وقت نہیں آیا۔ اسی غلط مفروضے کو بنیاد بنا کر بد عنوان سیاست کا جواز گھڑا جاتا ہے اور نام نہاد بائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں دائیں بازو کے معروف اور حکمران طبقے کے افراد کو مہمان خصوصی بلا کر فخر محسوس کرتی ہیں۔ تقریبات کے اخراجات بھی انہی شخصیات یا ان کے حواریوں سے وصول کیے جاتے ہیں اور اسے ان شخصیات کی تشہیر کی فیس قرار دیا جاتا ہے۔ یہ نام نہاد بڑی شخصیات درحقیقت خود سیاست کے اس نظریاتی زوال کی ذمہ دار ہیں اور ان کا ماضی خود بہت سی نظریاتی غداریوں سے داغدار ہے۔ اسی لیے پروگریسویوتھ الائنس نے اس غیر سیاسی اور بد عنوان طریقہ کار کو یکسر مسترد کر دیا اور طلبہ کوکسی’’بڑی ‘‘ شخصیت کے سحر میں مبتلا کرنے کی بجائے نوجوانوں کو خود اسٹیج پر آ کر اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دیا اور خود نوجوانوں کے ذریعے ہی اس الائنس کو منظم کرنے اور اس کے تمام اخراجات اکٹھا کرنے کا مشکل فیصلہ کیا۔
آغاز میں یہ سب کچھ کرنا ناممکن دکھائی دے رہا تھا لیکن انقلابی جوش و ولولے اور درست مارکسی نظریات کے باعث اس کنونشن کا کامیاب انعقاد ممکن ہوا۔ کشمیر کے تمام سیاسی پنڈت اس کنونشن کی کامیابی پر انگشت بدنداں ہیں اور اسے ایک سیاسی معجزہ قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ مارکسی نظریات کی سمجھ بوجھ رکھنے والے اسے درست تناظر، لائحہ عمل اور طریقہ کار کی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ کنونشن کی تیاریوں کے سلسلے میں تعلیمی اداروں میں بڑے پیمانے پر لیف لیٹ اور انقلابی لٹریچر تقسیم کیا گیا تھا جبکہ راولاکوٹ شہر کے ساتھ ساتھ دیگر علاقوں میں بھی پوسٹر لگائے گئے تھے۔ اس کے علاوہ بڑی تعدا د میں دعوت نامے بھی تقسیم کیے گئے تھے۔ ان انقلابی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے عوام دشمن قوتیں بھی سرگرم ہو گئیں اور ریاستی پشت پناہی سے کنونشن کے مقام کے بالکل سامنے چند قدم کے فاصلے پر جماعت اسلامی کی سامراجی طاقتوں کی کاسہ لیس اور طلبہ دشمن تنظیم نے صرف دو روز قبل اپنی تقریب کا اعلان کر دیا۔ اس تقریب کے لیے بڑے پیمانے پر اسپیکر نصب کیے گئے جن کا رخ آزادی کنونشن کے ہال کی جانب تھا۔ اس کا مقصد نوجوانوں کو خوفزدہ و ہراساں کرنا اور انہیں منظم ہونے سے دور رکھنا تھا۔ لیکن ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود اس کنونشن کا کامیاب انعقادمتاثر نہیں کیا جا سکا بلکہ نوجوانوں نے اپنے انقلابی نعروں سے ان رجعتی اور رد انقلابی قوتوں کے بڑے بڑے اسپیکروں سے آنے والی آوازوں کا مقابلہ کیا اور ایسی تمام قوتوں کو واضح پیغام دیا کہ اب نوجوان ان غلیظ ہتھکنڈوں سے گھبرانے والے نہیں اور انقلابی نوجوانوں کا یہ سفر اب ہر قسم کی رکاوٹوں اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ کنونشن کے دوران نوجوانوں کا انقلابی جوش و جذبہ دیدنی تھااور تقریروں کے دوران طلبہ کے مسائل اور آزادی کے نعروں سے ہال وقتاً فوقتاً گونج اٹھتا تھا۔ مقررین کی جانب سے بھی پر عزم اور پر جوش تقریروں نے حاضرین کی توجہ کوتمام وقت اپنی جانب مبذول رکھا۔ تمام مقررین نے نو عمری کے باوجود اپنی گفتگو سے سیاسی پختگی کا ثبوت دیا اور واضح کر دیا کہ آج کے نوجوان بر سر اقتدار بد عنوان اور مفاد پرست سیاستدانوں سے ہر لحاظ سے بہتر ہیں اور ان کا انقلابی عزم اس غلیظ سیاست اور استحصالی نظام کا خاتمہ کرتا ہوئے یہاں ایک نئے سوشلسٹ سماج کی بنیاد رکھے گا۔
کنونشن کے آغاز پر وحید عارف نے پاکستانی مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے طلبہ وفود کو خوش آمدید کہا اور ان کا شکریہ ادا کیا کہ وہ سخت مشکل معاشی حالات کے باوجود دور دراز کا سفر طے کر کے یہاں پہنچے اور اس کنونشن کو کامیاب بنایا۔ کنونشن کے پہلے مقرر ارباز گلشن تھے جنہوں نے پروگریسو یوتھ الائنس کے کشمیر میں قیام اور اغراض و مقاصد کے حوالے سے بات رکھی۔ ارباز نے کہا کہ 2008 ء کے معاشی بحران نے پوری دنیا کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ معاشی بحران کا سارا بوجھ محنت کشوں اور نوجوانوں پر ڈال دیا گیا جبکہ سرمایہ داروں کے منافع بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس کے خلاف پوری دنیا میں تحریکیں ابھر رہی ہیں جنہوں نے روایتی قیادتوں کو مسترد کر کے رکھ دیا ہے اور نئی قیادتیں تراش لائے ہیں۔ نام نہاد آزاد کشمیر میں بھی لمبے عرصے سے چلی آرہی سیاسی پارٹیاں اور طلبہ تنظیمیں اپنی سماجی بنیادیں کھو چکی ہیں اور درپیش مسائل کا حل دینے سے قاصر ہیں۔ فیسوں میں ہوشربا اضافہ، جس کا اظہار حالیہ عرصے میں پونچھ یونیورسٹی کے طلبہ کے احتجاجی مظاہروں میں بھی ہوا، نے محنت کشوں کے بچوں کے لئے تعلیم کا حصول ناممکن بنا دیا ہے۔ بیروزگاری کا ناسور نوجوانوں کو چاٹتا چلا جا رہا ہے۔ مگر روایتی تنظیمیں ان مسائل کے خلاف طلبہ کو متحرک کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ طلبہ خو د منظم ہوکر اپنے مسائل کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ تنظیمیں اپنا جواز کھو چکی ہیں۔ اس لئے کشمیر میں پروگریسو یوتھ الائنس کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے جو کہ ناصرف پاکستان بھر میں طلبہ اور نوجوانوں میں بنیادیں رکھتا ہے بلکہ عالمی سطح پر نوجوانوں اور محنت کشوں کے ساتھ جڑت رکھتا ہے اور اپنے درست پروگرام اور لائحہ عمل سے طلبہ اور نوجوانوں کے حقوق کی لڑائی آگے بڑھا رہا ہے۔
اس کے بعد پروگریسو یوتھ الائنس کشمیر کی سرگرم کارکن آمنہ فاروق نے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے پونچھ یونیورسٹی کے طلبہ کی فیسوں میں اضافوں کے خلاف تحریک اور اس کی کمزور یوں پر بات کی۔ اس کے ساتھ انہوں نے خواتین کو درپیش مسائل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کے لئے تعلیم حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ملائیت اور سرمایہ داری کا جبر ان کو گھر کی چار دیواری تک محدود کر کے رکھ دیتا ہے مگر پونچھ یونیورسٹی کے طلبہ کی فیسوں میں اضافے کے خلاف ہونے والے احتجاجوں میں طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کر کے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ بھی کسی سے کم نہیں اور اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے کو ہردم تیار ہیں۔
پونچھ یونیورسٹی راولاکوٹ سے طلبہ کی بڑی تعداد نے کنونشن میں شرکت کی۔ پونچھ یونیورسٹی کے طلبہ شعیب، وقاص، نشوا اور عاقب نے یونیورسٹی میں درپیش مسائل کے حولے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پونچھ یونیورسٹی کو یونیورسٹی کہنا کسی مذاق سے کم نہیں۔ کسی بھی کیمپس کی کوئی مناسب عمارت ہی موجود نہیں۔ دیگر سہولیات کا بھی فقدان ہے۔ اس پر فیسوں میں کئی گنا اضافہ کردیا گیا جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔ پونچھ یونیورسٹی کے طلبہ نے حالیہ فیسوں میں اضافے کے خلاف ہونے والے احتجاجوں میں پروگریسو یوتھ الائنس کے کردار کو سراہا اور کہا کہ یہ واحد پلیٹ فارم ہے جس نے نا صرف ہم کو اپنی قوت کا احساس دلایا بلکہ طلبہ کو منظم کرنے میں بھی بھرپور کوششیں کیں۔
فیڈرل اردو یونیورسٹی کراچی سے عطااللہ نے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے پروگریسو یوتھ الائنس کشمیر کے ساتھیوں کو کامیاب کنونشن پر مبارکباد پیش کی اور روایتی طلبہ تنظیموں کے حقیقی کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کی بات کریں تو یہ نام نہاد طلبہ تنظیمیں یونیورسٹی انتظامیہ کی بی ٹیم بن چکی ہیں اور طلبہ کی اکثریت ان سے نفرت کرتی ہے اور ایسے حالات میں پروگریسو یوتھ الائنس کی پورے ملک میں جاری کمپین قابل ستائش ہے اور ہم کراچی میں بھی طلبہ کو منظم کرنے میں بھرپور کردار ادا کریں گے۔ سندھ یونیورسٹی حیدر آباد سے علی برکت بلوچ، ایمرسن کالج ملتان سے راول اسد، پشاور یونیورسٹی سے اسفند یار شنواری، رائل کالج لاہور سے رائے اسد اور گوجرانوالہ سے سلمیٰ نے کنونشن سے خطاب کیا۔
ڈگری کالج پلندری سے عادل نے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے وہاں طلبہ کو درپیش مسائل کو شرکا کے سامنے رکھا اور کہا کہ مسائل اتنے سنگین ہیں کہ محض چند دنوں کی کیمپین سے پلندری سے پچاس سے زائد طلبہ نے اس کنونشن میں شرکت کی ہے اور پروگریسو یوتھ الائنس کے پروگرام کو شاندار رسپانس ملا ہے۔ ڈگری کالج باغ سے عبدالرحمن او رکوٹلی یونیورسٹی سے عطا اللہ اور ذیشان نے کنونشن سے خطاب کیا اور طلبہ اور نوجوانوں کو منظم کرنے کے حوالے سے پروگریسو یوتھ الائنس کی کاوشوں کو سراہا۔
اس دوران گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے پونچھ یونیورسٹی کے طلبہ نے علاقائی رقص پیش کیا جسے حاضرین نے دل کھول کر داد دی۔ فیصل آباد سے مجاہد پاشا نے پروگریسو یوتھ لائنس کشمیر کے کنونشن کے لئے خاص طور پر لکھی گئی مشہور شاعر ادریس بابر کی نظم پڑھ کر سنائی۔ اس کے علاوہ گجرات یونیورسٹی کے طالبعلم ہمراز سروانی نے بھی اپنی شاعری پیش کی اور خوب داد وصول کی۔
اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے عمر ریاض کنونشن کے آخری مقرر تھے۔ عمر نے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ ایک سال سے جاری نوجوانوں اور طلبہ کی آزادی کی تحریک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ تحریک کشمیر کی تاریخ کی سب سے بڑی تحریک ثابت ہوئی ہے جس نے بھارتی ریاست کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا ہے۔ ہاتھوں میں پتھر اٹھائے یہ نوجوان جدید اسلحے سے لیس بھارتی فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کررہے ہیں۔ اس تحریک میں طالبات نے شامل ہو کر سب کو حیران کردیا ہے۔ یونیفارم میں ملبوس یہ نہتی لڑکیاں بھارتی فوجیوں پر پتھر برساتی نظر آتی ہیں۔ ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اس تحریک کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس تحریک نے تمام قیادتوں اور سیاسی پارٹیوں کو مسترد کردیا ہے اور نوجوان خود ہی اس تحریک کی قیادت کرتے نظر آتے ہیں۔ اس سب نے ناصرف بھارتی ریاست بلکہ پاکستانی ریاست کو بھی خوفزدہ کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان نوجوانوں نے مسلح جدوجہد کو مسترد کردیا ہے اور پاکستانی فوج کی پالتو دہشت گرد تنظیمیں اس تحریک میں خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہوئی ہیں۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ کشمیر کے عوام نے ماضی کے تجربات سے تلخ اسباق حاصل کئے ہیں اور ناصرف مسلح جدوجہد کے غلط طریقہ کار کو مسترد کیا ہے بلکہ نام نہاد حریت پسند قیادت کو بھی ماضی کا قصہ بنا ڈالا ہے۔ عمر کا کہنا تھا کہ کشمیر کے یہ نوجوان پاکستانی جھنڈا صرف اور صرف بھارتی ریاست اور فوجیوں کو اشتعال دلانے کے لئے لہراتے ہیں اور وہ پاکستانی ریاست کے کشمیر کی قومی آزادی کی تحریک میں مجرمانہ کردار سے بھی اچھی طرح واقف ہیں جس نے اپنے سامراجی عزائم کے حصول کے لئے جہادی تنظیموں کی پرورش کی اور کئی نوجوانوں کو جہاد کے نام پر شہید کروایا اور بھارتی ریاست کی مدد کرتے ہوئے اسے جبر کا جواز فراہم کیا۔ عمر کا مزید یہ کہنا تھا کہ آزادی کے نعرے بلند کرتے یہ نوجوان صرف بھارتی ریاست کے جبر سے آزادی نہیں چاہتے بلکہ اگر ان کے انٹرویوز سنے جائیں تو ان کی آزادی کا حقیقی مطلب سمجھ میں آتا ہے۔ وہ آزادی چاہتے ہیں مہنگائی سے، بیروزگاری سے، مہنگی تعلیم سے، غربت سے، افلاس سے، لاعلاجی سے اور سب سے بڑھ کر بھارتی ریاست کے جبر سے۔ عمر کا کہنا تھا کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ لڑائی صرف بھارتی کشمیر کی لڑائی نہیں ہے بلکہ کے خطے کے تمام محنت کشوں اور نوجوانوں کی لڑائی ہے کیونکہ ان کے مسائل یکساں ہیں۔ اس لئے لڑائی بھی ایک ہی ہونی چاہیے۔ خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو نا صرف کشمیر میں جاری اس تحریک کی حمایت کرنی چاہیے بلکہ ان مسائل کے ذمہ دار پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقات کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرنا چاہیے۔ جنوبی ایشیا کی سوشلسٹ فیڈریشن ہی خطے کی محکوم قومیتوں کو ناصرف قومی جبر سے نجات دلا سکتی ہے بلکہ حقیقی آزادی کی ضامن بن سکتی ہے۔عمر نے پاکستان اور نام نہاد ’آزاد‘ کشمیر میں طلبہ کو درپیش مسائل پر بھی روشنی ڈالی ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت سی پیک کو تمام مسائل کا حل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جیسے اس کے بعد یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ جبکہ حقیقت اس کے الٹ ہے ۔ سی پیک چین کا ایک سامراجی منصوبہ ہے جو یہاں لوٹ مار کی غرض سے شروع کیا جا رہا ہے۔ برطانوی اور امریکی سامراجی طاقتوں کی لوٹ مار کے بعد اب یہاں چین کا حکمران طبقہ یہاں کے عوام کا خون چوسنے آ رہا ہے جس کے لیے یہاں کے گماشتہ حکمران اپنی تمام تر خدمات پیش کر رہے ہیں۔ اس منصوبے سے غربت اور بدحالی میں مزید اضا فہ ہو گا جبکہ سامراجی طاقتوں کی لڑائی کے باعث دہشت گردی اور خونریزی بھی بڑھے گی۔ اس لیے نوجوانوں کو ایک یا دوسری سامراجی قوت سے امیدیں وابستہ کرنے اور ان کا آلہ کار بننے کی بجائے سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کی جدوجہد کا آغاز کرنا چاہیے۔
کنونشن کے اختتام پر عادل راؤ نے مہنگی تعلیم، بیروزگاری، طلبہ یونین کی بحالی اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں سرکاری ملازمین کی ایسوسی ایشنوں پر پابندی کے خلاف قراردادیں پیش کیں جن کومتفقہ طور پر منظور کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک کے ساتھ اظہار یکجہتی اور مکمل حمایت کے حوالے سے بھی ایک قرارداد پیش کی گئی جس کو اتفاق رائیسے منظور کیا گیا۔
اس موقع پرپروگریسو یوتھ الائنس کشمیر کی آٹھ رکنی ایگزیکٹوباڈی کا بھی اعلان کیا گیا جس میں وحید عارف صدر، عبید ذوالفقار سینئر نائب صدر، صہیب حنیف نائب صدر، عبید زبیر جنرل سیکرٹری، نشوا ویمن سیکرٹری، عادل آرگنائزر، ذیشان فنانس سیکرٹری، عبدالرحمان سیکرٹری اطلاعات اور عاقب سٹڈی سرکل انچارج کی ذمہ داریاں سرانجام دیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ پونچھ یونیورسٹی راولاکوٹ اور میڈیکل کالج راولاکوٹ کے طلبہ پر مشتمل بارہ رکنی مقامی آرگنائزنگ باڈی بھی تشکیل دی گئی۔
کنونشن کے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے پروگریسو یوتھ الائنس کے مرکزی آرگنائزر زین العابدین نے نومنتخب ذمہ داران کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ مسائل جس حد تک شدید ہوتے جا رہے ہیں ہیں ان کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کی تاریخ میں آج کا دن ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جب بین الاقوامی نظریات پر مبنی نوجوانوں کی ایک نئی تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا جو کہ پوری دنیا کے نوجوانوں اور محنت کشوں کے ساتھ جڑت رکھتی ہے۔ ہم تمام مظلوم قومیتوں کی لڑائی کو اپنے لڑائی سمجھتے ہیں اور سامراجی جبر کے خلاف ناقابل مصالحت جدوجہد کررہے ہیں۔ مگر جب تک یہ سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے کبھی بھی حقیقی آزادی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ بھگت سنگھ نے آج سے کئی سال پہلے آزادی کا حقیقی مطلب اور راستہ بیان کردیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہیے جس میں گورا سرکار کی بجائے بھورا سرکار آجائے بلکہ ہم ایسی آزادی چاہتے ہیں جس میں ایک انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان کا استحصال نہ ہو جہاں لوگ حقیقی انسانی زندگی بسر کرسکیں۔ نام نہاد آزادی کے ستر سال گزر جانے بعد بھی آج تک کوئی بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔ غربت، بیروزگاری، دہشت گردی، استحصال، لوٹ مار اور کرپشن نے یہاں کے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر کے رکھ دی ہیں۔ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی خطے کے محنت کشوں ا ور نوجوانوں کو درپیش تمام مسائل سے نجات دلا سکتا ہے۔
کنونشن کے اختتام پر بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ریلی بھی نکالی گئی۔ ریلی ہل ٹاپ ہال سے شروع ہو ئی اور بازار سے گزرتے ہوئے پورے شہر کا چکر لگایا۔ ریلی کا اختتام کچہری چوک میں ہوا۔ اس دوران ریلی کے شرکا مہنگی تعلیم، قومی جبر، مہنگائی، غربت، سامراجیت اور سرمایہ داری کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے۔ ریلی ہم چھین کے لیں گے آزادی ‘ قومی جبر سے آزادی ‘ مہنگی تعلیم سے آزادی ‘ بیروزگاری سے آزادی ‘ بھوک ننگ سے آزادی ‘سرمایہ داری سے آزادی ‘ طلبہ یونین بحال کرو‘ مفت تعلیم ہمار حق ہے‘ مفت علاج ہمارا حق ہے‘ قومی جنگ نہ مذہبی جنگ‘ طبقاتی جنگ طبقاتی جنگ‘ جب تک جنتا بھوکی ہے ‘ یہ آزادی جھوٹی ہے‘ جب تک جنتا تنگ رہے گی جنگ رہے جنگ رہے گی‘تیز ہو تیز ہو ‘ جدو جہد تیزہو‘کالی رات جاوے ہی جاوے‘ سرخ سویرا آوے ہی آوے‘ سرخ ہے سرخ ہے ایشیا سرخ ہے‘ انقلاب کے تین نشان طلبہ ‘مزدور اور کسان‘لال سلام لال سلام‘ انقلاب انقلاب سوشلسٹ انقلاب اور دیگر انقلابی نعروں سے گونجتی رہی۔
ریلی کے اختتام پر کچہری چوک میں پروگریسو یوتھ الائنس کے صدر وحید عارف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس نام نہاد آزاد کشمیر میں ستر سال گزر جانے کے باوجود بنیادی مسائل بھی حل نہیں کیے جا سکے بلکہ ریاستی جبر بڑھتا جارہا ہے۔ ریاست کے پالے ہوئے دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں جبکہ اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہم لائن آف کنٹرول کے اُس پار جاری قومی آزادی کی تحریک نہ صرف حمایت کرتے ہیں بلکہ اس لڑائی کو لائن آف کنٹرول کے اِس پار بھی جاری رکھے ہوئے ہیں اور پاکستان اور ہندوستان سمیت خطے کے تمام محنت کشوں سے اس تحریک کی حمایت کی اپیل کرتے ہیں۔