|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|
10 جنوری، بروز اتوار پروگریسو یوتھ الائنس کے زیرِ اہتمام کسان ہال مزنگ میں ایک روزہ مارکسی سکول منعقد کیا گیا۔ جس میں شدید سردی کے باوجود لاہور کے مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ اور مزدوروں نے شرکت کی۔ سکول میں طلبہ نے آن لائن بھی شرکت کی۔ سکول کے دو سیشن تھے۔ پہلے سیشن میں ”عالمی و پاکستان تناظر“ اور دوسرے سیشن میں کارل مارکس کی تحریر ”اجرتی محنت اور سرمایہ“ پہ سیر حاصل گفتگو کی گئی۔
”عالمی و پاکستان تناظر“ پر کامریڈ وریشا نے لیڈ آف دی اور ثنااللہ جلبانی نے اس سیشن کو چیئر کیا۔ کامریڈ وریشا نے اپنی گفتگو کا آ غازکرتے ہوئے کہا کہ نئے سال کے آ غاز پر لوگ بہت پُرامید تھے کہ گزشتہ سال کی ہولناکیوں کے بر عکس شائد نیا سال ان کے لیے کچھ بہتری لے کر آئے اور انہیں کچھ اچھا سننے کو ملے۔ مگرعوام نے نئے سال کے پہلے ہفتے میں ہی عالمی اور پاکستانی سیاسی منظر پر کافی ہولناک واقعات دیکھے، جیسا کہ ٹرمپ کے حماتیوں کا امریکا کے دارالخلافہ پر حملہ اور پولیس و دیگر اداروں کی طرف سے ان پر تشدد کی نتیجے میں ہونے والی اموات، اسلام آباد میں سرینگر ہائی وے پر ایک طالب علم اسامہ ستی کا پولیس کے ہاتھوں بہیمانہ قتل اور اس کے خلاف ایک شدید عوامی ردعمل، کوئٹہ میں گیارہ کول مائن محنت کشوں کا بہیمانہ قتل اور اس کے خلاف ملک گیر دھرنے، عمران خان کا متاثرہ خاندانوں کی طرف حقارت آمیز رویہ، ہفتے کی رات ایک دم سے پورے ملک میں بجلی کا چلے جانا اور اس کے نتیجے میں عوام کی طرف سے حکمرانوں کا سوشل میڈیا پر تمسخر اُڑانا۔
وریشا کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے حماتیوں کا امریکہ کے دارالخلافہ پر حملہ کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ یہ امریکہ، جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کا راہنما ہے اور دنیا کی طاقتور ترین ریاست ہے، کے اندرونی تضادات کا پورے دنیا کے سامنے کھل کر آنا ہے۔ یہ اس بات کو بھی آشکار کرتا ہے کہ امریکا جو کہ دنیا بھر کی ریاستوں کی پالیسیوں کو اپنے فیصلوں سے متاثر کرتا رہا ہے، وہ اپنے داخلی تضادات کو پُرامن اندازسے حل کرنے کی صلاحیت کھوتا جا رہا ہے جو کہ اس طاقتور ترین ریاست کے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کا عندیہ بھی ہے۔
وریشا نے مزید کہا کہ عوامی سطح پر بھی امریکی عوام میں اپنے گرتے ہوئے معیارِ زندگی اور ریاست کے بڑھتے ہوئے جبر کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ پچھلے عرصہ میں سیاہ فاموں کی ملک گیر عوامی تحریک جس کے نتیجے میں امریکی صدر کو چھپنا پڑ گیا، بھی اسی کا ایک اظہار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لبرلز نے جوبائڈن کے ساتھ کافی امیدیں وابستہ کی ہیں اور اسے ایک مسیحا کے طور پر پینٹ کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن جوبائڈن بھی امریکا کے معاشی، فوجی، سیاسی اور عالمی مسائل کا حل پیش نہیں کر پائے گا۔ امریکہ میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری، مہنگائی اور کورونا کی تباہ کاریوں کے ردعمل میں ایک اور بڑی عوامی تحریک مستقبل قریب میں عین ممکن ہے، جس کے اثرات پوری دنیا بشمول پاکستان پر پڑیں گے۔
کامریڈ اسد، شہزاد، مقصود ہمدانی اور آفتاب اشرف نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان کی بگڑتی ہوئی معاشی سیاسی و سماجی صورتِ حال، خارجہ پالیسی، حکمران طبقہ کی آپسی لڑائیوں اور ان سب کے بیچ پستے ہوئے مزدور طبقے کے حوالے سے بات چیت کی۔ انہوں نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ مزدور طبقہ کی تیزی کے ساتھ مشکل ہوتی زندگی کے خلاف مزدور تحریک کے ابھرنے کو ایک انقلابی رُخ دینے کے لیے انقلابیوں کو پارٹی کی تعمیر و ترقی کے لیے کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسرے سیشن میں کارل مارکس کی تحریر ”اجرتی محنت اور سرمایہ“ پر لیڈ آف دیتے ہوئے کامریڈ ساحر جان نے کہا کہ اس تحریر کے ذریعے مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام کی مزدور دشمنی کی اساس کو آ شکار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مارکس اس تحریر میں سرمایہ دارانہ نظام کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ محنت سرمایہ کی بڑھوتری کے لیے لازم ہے۔ انسان کی محنت کے بغیر سرمایہ نہیں بن سکتا ہے۔ ایک سرمایہ دار ایک فیکٹری کے لیے عمارت، مشینری اور آلات وغیرہ سب جمع کر لے لیکن جب تک ان میں انسانی محنت نہ شامل ہو پیداواری عمل شروع نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی شروعات سے ہی مزدور استحصال پر مبنی نظام ہے۔ سرمایہ دار اجرت کے بدلے مزدور کی قوتِ محنت کو خرید لیتا ہے۔ اجرت پیداواری عمل کے شروع ہونے سے پہلے ہی طے ہو جاتی ہے اور سرمایہ دار کے منافع میں مزدور کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مزدور شروع کے چند گھنٹوں میں اپنی اجرت کے بدلے کا کام کر لیتا ہے اور اس کے بعد مزدورکا سارا دن سرمایہ دار کے لیے کثرِ زائد پیدا کرنے میں گزر جاتا ہے۔ سرمایہ دار اپنا منافع بڑھانے کے لیے نئی ٹیکنالوجی لے کر آتا ہے جس کے نتیجے میں پیداوار فی گھنٹہ تو بڑھتی ہے، مزدور کے اوقاتِ کار بھی وہی رہتے ہیں یا بڑھ جاتے ہیں لیکن مزدور کی اجرت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ مزید برآں سرمایہ دار مزدوروں کو نئی ٹیکنالوجی کے آنے کے بعد نکال دیتا ہے اور مزدور بیروزگار ہونے کے بعد سستی اجرت پر بھرتی ہونے کے لیے بھی تیار ہوتے ہیں۔ سرمایہ دار مزدور کے اوقاتِ کار بھی مختلف حیلوں بہانوں سے بڑھاتا ہے تاکہ اس کی شرح منافع مزید بڑھ سکے۔
اس کے بعد سکول کے شرکاء کی جانب سے سوالات کیے گئے اور رائے اسد، فضیل اصغر اور آفتاب اشرف نے بحث میں حصہ لیا۔ انہوں نے قدر، قدرِ استعمال، قدرِ تبادلہ، جنس اور دیگر بنیادی تصورات پر بات کی۔ پروگریسو یوتھ الائنس کی طرف سے شرکاء کے لیے بک سٹال کا اہتمام بھی کیا گیا تھا جس میں بہت دلچسپی کا مظاہرہ کیا گیا اور شرکاء نے کافی کتابیں خریدیں۔ سکول کا اختتام مزدوروں کا عالمی ترانہ گا کر کیا گیا۔