جنوبی پنجاب: پروگریسو یوتھ الائنس کے زیرِ اہتمام ’افسانہ بیٹھک‘ کا انعقاد

کہانی زندہ ہے۔ غیر معلوم انسانی تاریخ سے کہانی کا پہیہ چل رہا ہے اور جانے کب تک چلتا رہے گا۔ اس نے کئی پیراہن بدلے ہیں اور ہر آن تہذیب کے سفر کی گاڑی میں ایک نئی صورت میں انسان کے ساتھ والی سیٹ پر براجمان ماضی بعید سے لے کر، سوچوں میں بسنے والے مستقبل تک گھومنے میں ساتھ دیتی رہی ہے۔ پہلے پہل یہ گاڑی یونان کے پہاڑوں کی کھوہ میں ایلیڈ بن کر انسان کا حافظہ بنتی رہی اور جب فارس کے تپتے صحراؤں میں اس کی رفتار ذرا سست پڑی تو کہانی الف لیلہ کا روپ دھار کر اس کو محظوظ کرنے لگی۔ دنیا کے ہر خطے میں اس نے اپنا سفر جاری رکھا ایسا کرتے ہوئے اس نے ہزاروں روپ بدلے۔ اس نے عام شعور سے اجتماعی لاشعور کا سفر کیا ہے۔ ابتدا میں تو اس نے آواز اور زبان کے وسیلے سے سفر کیا، لیکن جب کاغذ قلم آیا تو یہ دوڑنے لگی اور الیکٹرونکس کی ایجاد کے بعد بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ یہ انٹرنیٹ کے جال پر اپنے جوہر دکھائے بغیر رہ جاتی۔

پروگریسو یوتھ الائنس، جنوبی پنجاب نے انٹرنیٹ پر زوم کے ذریعے اپنے اس کہانی سفر کا انعقاد سوموار کے روز کیا جس میں ہماری ملاقات جرمن کہانی کار برتولت بریختؔ سے کرانا مقصود تھا۔ 4 بجے کا وقت مقرر تھا۔ لنک آیا اور ہم فوراً زوم کی گاڑی میں سوار ہو گئے۔ پروگرام کے مطابق برتولت بریخت کا افسانہ ”اگر شارکس انسان ہوتیں“ پڑھا جانا تھا اور مترجم بھی ہمارے درمیان موجود تھے۔ مترجم کو صدارت سونپی گئی، نظامت کی سیٹ پر عرفان منصور کو بٹھایا گیا اور انٹرنیٹ کے مسائل کو سنبھالنے کی ذمہ داری فرحان رشید کے کندھوں پر ڈالی گئی۔ اسلامیہ یونیورسٹی کے وقاص صاحب نے گیئر لگایا اور کہانی کا سفر، افسانے کی شکل میں شروع ہو گیا۔

گاڑی پر تصویر ابھری جس میں رئیس لڑکی اپنے نوکر سے سوال کرتی ہے کہ اگر شارکس انسان ہوتیں تو وہ چھوٹی مچھلیوں سے کیسا سلوک کرتیں؟ اس سوال کے جواب میں ہماری سمعی حِس نے گاڑی کی سکرین پر کافی سارے بصری مناظر تشکیل دئیے۔ سمندر انسانی سماج کا روپ دھار گیا۔ چھوٹی مچھلیوں کے لئے خانے بن گئے اور ان کو صحت مند رکھنے کے لئے انتظامات ہو گئے تاکہ شارکس کو اچھی خوراک میسر ہو۔ پلک جھپکی تو ایک اور منظر سامنے تھا جس میں چھوٹی مچھلیوں کو جغرافیہ پڑھایا جا رہا تھا کہ شارکس کہاں سکون کرتی ہیں۔ آرٹ کی کلاس میں چھوٹی مچھلیوں سے شارکس کے جبڑوں کی حسین پینٹنگز بنوائی جا رہی تھیں۔ کہانی نے ہم کو تھیٹر دکھایا جہاں شارکس ہیرو تھیں۔ پھر اچانک گاڑی احتیاط سے چلنے لگی۔ وجہ معلوم ہوئی کہ جنگ ہو رہی ہے۔ شارکس نے چھوٹی مچھلیوں کو گروہوں میں تقسیم کر کے ایک دوسرے کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا ہے اور چھوٹی مچھلیوں میں سے جو کوئی بہادری سے لڑے گا اس کو تمغہ دینے کا اعلان کر دیا گیا۔ مذہب نے بتایا کہ سمندر کی زندگی تو عارضی ہے، جب کہ اصلی زندگی تو شروع ہی شارکوں کے معدے میں جانے کے بعد ہوتی ہے۔ اور پھر سے پہلی تصویر نمودار ہوئی جس میں نوکر کہ رہا تھا کہ سمندر تہذیب یافتہ ہی تب ہوتا جب شارکس انسان ہوتیں۔

افسانہ ختم ہو گیا مگر ہم سب کی سوچ کی پوٹلیوں نے کچھ چڑیوں کو سنبھال لیا جو ہم دیگر دوستوں کے سامنے پیش کرنا چاہتے تھے۔ ناظم نے سید کاشف بخاری کو سفر کا امیر بنایا۔ وہ افسانے کے مرکزی خیال کے بارے میں چند ہی الفاظ ادا کر پائے تھے کہ انٹرنیٹ کی خرابی نے ان کو اس سفر سے غائب کر دیا۔ گاڑی رکنے ہی لگی تھی کہ فرحان رشید نے دھکا لگاتے ہوئے کہا کہ یہ کہانی ہمارے معاشرے کی اخلاقیات، تعلیمی نظام، روایات اور مذہبی تعلیمات میں مخفی حکمران طبقے کے مفادات کو عیاں کرتی ہے اور سو سال گزرنے کے بعد بھی یہ آج بھی سچ ہی دکھائی دیتی ہے۔ یہ سن کر عمر فاروق صاحب نے اپنے علمی انداز میں سر لگایا کہ کہانی کا اعجاز یہ ہوتا ہے کہ وہ معروضی حقیقت کو انتہائی سادہ انداز میں بیان کر دیتی ہے اور مستقبل کا پتہ دیتی ہے۔ یہ کہانی سماج میں جاری طبقاتی فرق اور طبقاتی مفاد کے لئے مذہب کے استعمال کو بِنا کسی پیچیدگی کے عیاں کر رہی ہے۔

عمر فاروق کی بات مکمل ہوئی ہی تھی کہ عمران ٹیپو کی آواز گونجی کہ یہ افسانہ اپنے ہر ایک فقرے میں نئے مطالب کے ساتھ سامنے آتا ہے اور اس افسانے میں اخلاقیات کا استعمال اور استحصال واضح نظر آ رہا ہے۔ نظامت کے فرائض نبھا رہے عرفان منصور سے جب کچھ نہ بن پایا تو گویا ہوئے کہ اچھا ادب زندہ و جاوید ہوتا ہے یہ سماجی تضادات کا آئینہ دار ہوتا ہے اور زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس افسانے کی ہر ایک سطر، موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات کا کھلا اظہار ہے جو مختصر ہونے کے باوجود بھرپور ہے۔

گاڑی میں ہر وہ شخص، جو کچھ کہنا چاہتا تھا کہہ چکا تو صدرِ محفل و مترجم جاذب سلیم صاحب کو دعوت دی گئی۔ ان کی شستہ برقی آواز نے جو معنی اختیار کیے وہ یہ تھے کہ یہ افسانہ طبقاتی تضاد کی کہانی ہے۔ یہ انسانوں کے طرزِ زندگی سے عبارت ہے۔ جس میں مذہب اور آرٹ کو انسانوں میں فرق کو قائم رکھنے اور اس روا رکھے فرق کو درست قرار دینے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جنگیں مفادات کی ہوتی ہیں اور لقمۂ اجل عام لوگ بنتے ہیں۔ حکمرانوں کے مفاد کے لئے لوگوں کو گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ کہانی ہر صورت موجود انسانی سماج کی ظلمت اور اس کے قوانین کی بربریت کی عکاسی ہے۔ اسی کے ساتھ ہی سفر کے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا گیا اور ان کو واپس معروضی دنیا میں بھیج دیا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.