|رپورٹ: صدیق جان|
گذشتہ روز پروگریسو یوتھ الائنس(PYA) کے وفد نے جمعرات 13اپریل کو ریاستی پشت پناہی میں قتل ہونے والے نوجوان طالبعلم مشعل کے آبائی گاؤں جا کر ان کے والد اور اہل خانہ سے تعزیت کی۔ مشعل کے والد نے پی وائی اے کے وفد کو خوش آمدید کہا۔ اس دوران دیگر لوگ بھی تعزیت کے لئے موجود تھے اور ہر آنکھ اشکبار تھی۔ کامریڈ صدیق نے تعزیت کے لیے آئے ہوئے لوگوں کے سامنے بات کرتے ہوئے کہا کہ مشعل ایک سوچ اور فکر کا نام ہے جو کہ معاشرے کو درپیش مسائل سے نکال کر آگے لے جانا چاہتا تھا۔ مشعل مرا نہیں بلکہ ترقی پسند نوجوان مشعل کی قربانی سے سیکھیں گے اور اس کی لڑائی کو جاری رکھیں گے جو کہ اس نظام زر کے خاتمے تک جاری رہے گی۔ مشال ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مارا گیا کیونکہ وہ اس نظام زر سے تنگ تھا اور اس نے محروم اور محکوم طبقات کے لیے آواز اٹھائی۔ طلبہ مسائل بالخصوص فیسوں میں اضافے اور انتظامیہ کے جبر اور لوٹ مار کے خلاف آواز بلند کرنا ہی اس کا سب سے بڑا جرم تھا۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے اس سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ مذہب کا سہارا لیتے ہوئے ریاست کی گماشتہ تنظیموں کے ذریعے خاموش کروا دیا۔۔ پولیس کی موجودگی میں ہونے والا یہ دلخراش سانحہ ریاست کے منہ پر طمانچہ ہے اور اس بات کا واضح اظہار ہے کہ ریاست ان عوام دشمن عناصر کی مکمل پشت پناہی کررہی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ولی خان یونیورسٹی میں قوم پرست جماعت اے این پی کے طلبہ ونگ کا مکمل کنٹرول ہے اور خود کو ترقی پسند تنظیم کہنے والوں نے مشعل کے قتل میں انتہائی مجرمانہ کردار ادا کیا ہے اور جن لڑکوں نے مشعل پر حملہ کیا ان میں اسلامی جمعیت طلبہ، تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنان بھی شامل تھے جن میں کچھ کو گرفتار بھی کیا گیا ہے اور اس وقت اے این پی کی لیڈر شپ کی جانب سے کوئی واضح موقف نہیں آیا ہے۔
مشعل خان کو جس سوچ اور جن نظریات کی وجہ سے مارا گیا ہے وہ سوچ اوروہ نظریات مر نہیں سکتے بلکہ مشعل کی موت نے ان نظریات کو زندہ کیا ہے۔ جب تک غربت، بیروزگاری، استحصال، لاعلاجی اور دہشت گردی اور دیگر بے شمار مسائل موجود ہیں تب تک ان مسائل کے خلاف جدوجہد بھی جاری رہے گی۔ مشعل کے گھر تعزیت پر آنے والے لوگوں نے اس نظام پر کڑی تنقید کی۔
پورے پاکستان میں طلبہ میں اس کے خلاف غم و غصہ موجود ہے اور وہ اس انسانیت سوز واقعے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس فیسوں میں اضافے، تعلیمی اداروں میں انتظامیہ کے جبر، مفت تعلیم، روزگار، طلبہ یونین کی بحالی سمیت سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد جاری رکھے گا۔ صرف اسی صورت میں مشعل کے خون کا بدلہ لیا جاسکتا ہے جو کہ ہم سب پر قرض ہے۔