| رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|
پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ طلبہ کے دھرنے کو آج دس دن بیت چکے ہیں اور یہ دھرنا تاحال جاری ہے۔ دھرنے کا مقصد پنجاب یوینورسٹی سے اغوا ہونے والے بلوچ طالب علم بیبگر بلوچ کی بازیابی ہے۔ بیبگر بلوچ کو 27 اپریل کی صبح سیکورٹی اداروں کی جانب سے زبردستی اغوا کیا گیا تھا۔
دھرنا شروع ہونے کے اگلے ہی روز 28 اپریل کو یونیورسٹی انتظامیہ اور پولیس کی طرف سے احتجاج کرنے والے طلبہ پر تشدد کیا گیا اور متعدد طلبہ زخمی ہوئے۔ اس کے باوجود طلبہ ثابت قدم رہے اور ان کا کہنا ہے کہ مطالبات کی منظوری تک دھرنا جاری رہے گا۔ یونورسٹی انتظامیہ اور پولیس کا یہ مشترکہ عمل ظاہر کرتاہے کہ طلبہ کے خلاف یہ تمام ادارے متحد ہیں اور طلبہ پر تشدد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
بیبگر بلوچ نمل یونیورسٹی اسلام آباد کا طالبعلم ہے جو عید کی چھٹیوں کی مناسبت سے اپنے کزن کے پاس لاہور آیا تھا۔ اس موقع پر یونیورسٹی کا سی ایس او بھی موجود تھا جس نے اس غیر انسانی فعل میں مکمل تعاون کیا۔ بیبگر کے علاوہ بلوچستان اور دیگر جگہوں سے کئی طلبہ کو اغوا کیا گیا ہے۔ یہ اغوا کاریاں کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد شروع کی گئی ہیں۔ لیکن ایسا بالکل بھی پہلی بار نہیں ہو رہا ہے۔ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ طویل عرصے سے چلا آ رہا ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے واقعے کو بنیاد بنا کر عام بلوچ طلبہ کی پروفائلنگ انتہائی شرمناک ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس اس کی بھرپور مذمت کرتا ہے۔
ریاستی اداروں اور انتظامیہ کی طلبہ دشمنی کی تاریخ ہے وہ ہمیشہ اس طرح کے واقعات کو جواز بنا کر کریک ڈاؤن میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ وہ در اصل طلبہ کو خوفزدہ رکھنا چاہ رہے ہیں تاکہ طلبہ اپنے موجودہ مسائل مثلاََ فیسوں میں مسلسل اضافہ، طلبہ یونین پر پابندی، ہراسمنٹ، ہاسٹلز اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات کی جدوجہد کی طرف راغب نہ ہو سکیں۔اور طلبہ دشمن اقدامات کو آسانی سے جاری رکھا جا سکے۔
اس سلسلے میں ہم یقیناََ کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہیں مگر ہم یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ پاکستانی ریاست اور اس کے پالیسی ساز خود کو اس قسم کی کاروائیوں سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ یہ مسلسل بڑھتا ہوا ریاستی اور قومی جبر ہی ہے جس نے اب ماؤں اور بہنوں کو بھی اس آگ اور خون کی ہولی میں دھکیل دیا ہے۔
دھرنے میں بیٹھے طلبہ کے دو مطالبات ہیں کہ بیبرگ بلوچ کو بازیاب کیا جائے یا اگر وہ کسی جرم میں ملوث ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ بلوچ طالب علموں کی پروفائلنگ کا خاتمہ کیا جائے۔ پروگریسو یوتھ الائنس ان مطالبات کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تعلیمی اداروں کے اندر طلبہ یونین کی غیر موجودگی کا نتیجہ ہے کہ دن دہاڑے سیکیورٹی اہلکار ایک طالب علم کو ہاسٹل سے اٹھا کے لے جاتے ہیں اور کوئی کچھ نہیں کرتا۔
ہم پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ اس ظلم کی مذمت کریں اور اس کے خلاف آواز بلند کریں۔ بیبگر بلوچ کا اغوا صرف بلوچ طلبہ کا نہیں بلکہ تمام طلبہ کا مسئلہ ہے۔ یہ ادارے سیکیورٹی والوں کے باپ کی جاگیر نہیں ہیں کہ اپنی مرضی سے دندناتے پھریں اور کھلے عام بدمعاشی کریں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ طلبہ کی جڑت اور مشترکہ جدوجہد سے ہی ان مسائل کے خلاف لڑا جا سکتا ہے اور انہیں حل کیا جا سکتا ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس دھرنا دینے والے بلوچ طلبہ سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرواتا ہے۔ ہم پہلے بھی اس میں شریک رہے ہیں اور مطالبات کی منظوری تک ان کے ساتھ کھڑے رہیں گے