| منجانب: مرکزی بیوریو، پروگریسو یوتھ الائنس|
پنجاب یونیورسٹی کی طلبہ دشمن انتظامیہ نے ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولیات کے لیے آواز اٹھانے والے طلبہ کو شو کاز نوٹس جاری کر دیے۔ ٹرانسپورٹ کی دگرگوں صورتحال جیسے انتہائی سنجیدہ مسئلے کی بہتری کا مطالبہ پرامن طلبہ کے لیے جرم بن گیا۔ رجسٹرار پنجاب یونیورسٹی کے احکامات پر جاری کیے گئے شوکاز نوٹس میں ’’ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولیات‘‘ کا مطالبے کو جرم قرار دیا گیا ہے اور طلبہ سے تین دن میں جواب طلب کیا گیا ہے بصورت دیگر نوٹس میں طلبہ کو یونیورسٹی سے جبری نکالنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس پنجاب یونیورسٹی وائس چانسلر اور انتظامیہ کی اس غنڈہ گردی کی شدید مذمت کرتا ہے اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ یہ شوکاز نوٹس فی الفور واپس لیے جائیں۔ ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولیات طلبہ کا بنیادی حق ہے اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ یونیورسٹی میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کیا جائے۔
یہ شوکاز نوٹس پنجاب یونیورسٹی وائس چانسلر، رجسٹرار اور باقی انتظامیہ کی طلبہ دشمنی کا واضح ثبوت ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ کو بہتر سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ یونیورسٹی ٹرانسپورٹ کی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے۔ گرمیوں کے موسم میں رش کے باعث دم گھٹنے سے کئی طلبہ بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ رش کے باعث بس سے گر کر ایک طالبہ کی ہلاکت کا واقعہ بھی پیش آچکا ہے۔ فیسوں اور یونیورسٹی بجٹ کا ایک بڑا حصہ انتظامیہ کی اپنی کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے اور اس حوالے سے خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ اپنی کرپشن اور نااہلی چھپانے کے لیے یونیورسٹی سہولیات کی بہتری کی آواز اٹھانے والوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ طلبہ کو جاری کیے گئے شوکاز نوٹس میں یہ واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ’’ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولیات کا مطالبہ‘‘ یونیورسٹی انتظامیہ کے نزدیک ایک سنگین جرم اور ’ڈسپلن‘ کی خلاف ورزی ہے۔ مزید برآں ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولیات کے لیے نکالی گئی یہ ریلی یونیورسٹی کی بدنامی کا باعث بنی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بسوں کے دروازے میں لٹکے طلبہ یونیورسٹی کی بدنامی کا باعث نہیں بلکہ ٹرانسپورٹ کی سہولیات کی بہتری کا مطالبہ کرنے والے یونیورسٹی کی بدنامی کا باعث ہیں۔
خود موجودہ وائس چانسلر کا اپنا کردار متنازع ہے۔ موجودہ وائس چانسلر نیاز احمد اختر غنڈہ گرد تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم رہ چکا ہے اور اس وقت دل و جان سے پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کے لیے سرگرداں ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کی ہونے والی حالیہ کاروائیاں اس بات کا واضح ثبوت ہے جن کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
اس حوالے سے یونیورسٹی انتظامیہ اور اس کی بی ٹیم غنڈہ گرد تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کا گٹھ جوڑ بھی کھل کر سامنے آگیا ہے۔ ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولیات کے لئے نکالی گئی ریلی پر حملہ کرنے والی تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کے غنڈے ابھی بھی بے لگام گھوم رہے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ دو دن قبل بھی جمعیت کے غنڈوں کی جانب سے دو طلبہ کو اغوا کر لیا گیا جو ابھی تک غائب ہیں۔ ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولیات کے لیے ہونے والی ریلی پر جمعیت کے غنڈوں کا حملہ طلبہ حقوق کی داعی اسلامی جمعیت طلبہ کا حقیقی چہرہ فاش کرتا ہے۔ روز اول سے جماعت اسلامی اور جمعیت حکمران طبقات، امریکی سامراج اور ریاستی اداروں کی گماشتہ کا کردار ادا کرتی آئی ہے۔ انتظامیہ اور ریاستی اداروں کی پشت پناہی کے بغیر جمعیت کا پنجاب یونیورسٹی میں ٹھہر پانا ممکن نہیں۔ طلبہ یونینز پرپابندی ہے جبکہ ریاستی اداروں کی گماشتہ تنظیمیں کھل کر کام کر رہی ہیں اور طلبہ حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ مشال خان کا بہیمانہ قتل اس کی واضح مثال ہے۔
یونیورسٹی سیکیورٹی کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ سیکیورٹی کا مقصد عام طلبہ پر جبر اور خوف و ہراس پھیلانا ہے جبکہ اسلامی جمعیت طلبہ کے غنڈے دندناتے پھرتے ہیں۔ یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی افسر اور سیکیورٹی گارڈز کی موجودگی میں حملہ کیا گیا اور سیکیورٹی گارڈز اور پولیس خاموش تماشائی بنے کھڑے رہے۔ اس کے بعد یونیورسٹی ہاسٹلز کے قریب ایک درزی کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا۔ اور اب دوروز قبل جمعیت کے مسلح غنڈے یونیورسٹی ہاسٹلز سے دو طلبہ کواغوا کر کے لے گئے جس کے خلاف پولیس رپورٹ بھی درج ہوچکی ہے۔ یہ واضح کرتا ہے سیکیورٹی طلبہ کے تحفظ میں ناصرف ناکام ہوچکی ہے بلکہ خود اس غنڈہ گردی میں بھی ملوث ہے۔ ہم سمجھتے ہیں طلبہ کی اپنی منتخب کردہ کمیٹیاں ہی تعلیمی اداروں کا حقیقی تحفظ کرسکتی ہیں۔ اس لیے طلبہ یونین کی بحالی کی جدوجہد انتہائی ضروری ہے۔
قریباً ایک مہینہ گزرنے کے باوجود بھی پر امن ریلی پر حملہ کرنے والے عناصر کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی اور ان کی غیر قانونی سرگرمیاں ابھی تک جاری ہیں جس کا ثبوت پنجاب کلچرل ڈے منانے والے دو طلبہ کا جمعیت کی طرف سے اغوا کیا جانا ہے۔ البتہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولیات مانگنے والے اور غنڈہ گردی کا شکار بننے والے طلبا و طالبات کو نوٹس بھیجنا شروع کر دیے ہیں۔
یونیورسٹی انتظامیہ کا یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ انتظامیہ طلبہ کے حقیقی مسائل کو حل نہیں کرنا چاہتی اور بہتر ٹرانسپورٹ کی سہولیات کے لئے منعقد کیے جانے والی ریلی پر حملہ کرنے والی جمعیت کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ جمعیت کو انتظامیہ کی حمایت حاصل ہے اور دونوں کا کردار طلبہ دشمن ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس یہ مطالبہ کرتا ہے کہ یہ شو کاز نوٹس فوری واپس لیے جائیں اور ٹرنسپورٹ سمیت دیگر سہولیات کو بہتر بنایا جائے۔ یونیورسٹی میں موجود اسلامی جمعیت طلبہ کے غنڈوں کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے۔ بصورت دیگر پروگریسو یوتھ الائنس ملک گیر احتجاج کی کال دے گا۔