|تحریر: ثناء اللہ جلبانی|
انقلاب روس کے قائد لینن نے کہا تھا کہ انقلابی حالات سے قبل عوام کا تمام مقتدر سیاسی پارٹیوں اور ریاستی اداروں پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ حکمران آپس میں کتوں کی طرح لڑنا شروع ہو جاتے ہیں اور پہلے کے آزمودہ طریقوں سے عوام پر حکمرانی قائم نہیں رکھ پاتے۔ اس وقت ہمیں پاکستان میں بھی ایسی صورت حال ہی درپیش ہے۔ عوام کی مروجہ سیاسی پارٹیوں سے نفرت اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے۔ عوام کے غم و غصے کی وجہ سے حکمرانوں کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو چکا ہے۔
حالیہ انتخابات کے نتائج میں ردوبدل، الیکشن کمیشن کا کھلواڑ اور ریاستی اداروں کے ننگے ناچ نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عوامی نفرت میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ ان الیکشنز نے پیپلز پارٹی، ن لیگ سمیت انتہا پسند مذہبی اور قوم پرست پارٹیوں کے عوام دشمن کردار کو واضح کر دیا ہے، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی ڈیل کی داستان زبان زد عام ہے۔ بہرحال بمشکل مخلوط حکومت قائم کی گئی ہے اور اس نئی حکومت کا سب سے پہلا کام آئی ایم ایف کے احکامات پر ہر صورت عمل درآمد کر کے محنت کش عوام پر مہنگائی اور بے روزگاری کے ہیبت ناک وار کرنا ہے، جس کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
ان تمام پارٹیوں کے عوام دشمن کردار کو یہاں کے عوام بخوبی جان چکے ہیں، لیکن حالیہ الیکشنز میں پاکستان تحریک انصاف کی حمایت میں پڑنے والے ووٹوں میں خاطر خواہ اضافہ نظر آیا ہے۔ محنت کش طبقے میں اس پارٹی کی کبھی وسیع بنیادیں نہیں رہی ہیں، وہ اس پارٹی کی قیادت اور پروگرام میں واضح مزدور دشمن رجحان کی وجہ سے اِسے پہلے ہی رد کر چکے ہیں۔ لیکن مڈل کلاس میں اس پارٹی کے لیے حمایت موجود ہے۔ یہ حمایت بھی تحریک انصاف کے دور اقتدار میں بہت کم ہو چکی تھی، مگر الیکشن سے پہلے تحریک انصاف پر ریاستی کریک ڈاؤن کی وجہ سے پھر اس کی حمایت کے گراف میں اضافہ نظر آیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس حمایت کے پیچھے بھی باقی پارٹیوں اور اسٹیبلشمنٹ سے نفرت ہی ہے۔
مگر سوشل میڈیا پروپیگنڈے اور پی ٹی آئی کے ہمدرد نوجوانوں سے یہ اکثر سننے کو ملتا ہے کہ ”یہ دوسری پارٹیوں سے قدرے اچھی پارٹی ہے“، ”یہ امریکی سامراج کی کھل کر مخالفت کرنے والی پارٹی ہے“، ”دہائیوں میں ہونے والی بربادی اور کرپشن کی تلافی کے لیے مزید کئی دہائیاں لگیں گی“، ”عمران خان کو کام کرنے دیا جائے تو ترقی ہو سکتی ہے“، ”باقی پارٹیاں کئی بار برسر اقتدار رہ چکی ہیں، اس نئے آپشن کو بھی آزمانہ چاہیے“، اور ”عمران خان خود ایماندار شخص ہے لیکن اس کے ساتھ کام کرنے والی ٹیم کرپٹ ہے“۔ کیا ان دوستوں کے یہ خیالات واقعی درست ہیں؟ یا پھر باقی پارٹیوں سے بے زاری اور حالات زندگی بہتر کرنے کی خواہش کی وجہ سے وہ جذباتیت اور پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں؟ آئیے اس پر مختصراً بات کرتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کا ماضی، دورِ اقتدار اور حال
پاکستان تحریک انصاف کی بنیادیں نوے کی دہائی میں سابقہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل کی آشیرباد سے ڈالی گئیں تھیں۔ حمید گل ریاست کے انتہائی رجعتی حصے کا نمائندہ تھا اور افغانستان کو پانچواں صوبہ بنانے اور عمران خان کو اِس خطے میں نئے خلیفہ کے طور پر تیار کرنے کے لیے اسے شوکت خانم جیسے ’فلاحی و خیراتی‘ پروجیکٹ کے ذریعے ہمدردیاں اور فنڈ اکٹھا کرنے میں اس نے مدد کی۔ مشرف دور کے آغاز میں عمران خان باقاعدہ اس آمر کی تعریفیں کرتا رہا اور اس پارٹی کی پوری تنظیم سازی بھی آئی ایس آئی نے کی۔ اسی دور میں اقتدار نصیب نہ ہونے کی وجہ سے وہ مشرف کے خلاف ہو گیا۔ پرویز مشرف نے محنت کشوں پر حملے کرنا شروع کیے تو وہ محنت کشوں کی تحریکوں سے بھی کوسوں دور کھڑا رہا جس کی وجہ سے یہ محنت کش طبقے میں کوئی حمایت حاصل نہیں کر پایا۔
2008ء کے الیکشنز میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ ان الیکشنز میں بھی پی ٹی آئی کوئی خاطر خواہ کامیابیاں نہیں سمیٹ پائی۔ چند ہی سالوں میں آصف زرداری کی سربراہی میں پیپلز پارٹی کا بھی مزدور اور عوام دشمن چہرہ نمایاں ہو گیا۔ ایک بار پھر پی ٹی آئی کے غبارے میں اربوں روپے خرچ کر کے ہوا بھرنے کی کوشش کی گئی اور بڑے بڑے جلسے کروائے گئے۔ لیکن اس کے باوجود بھی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے منجھے ہوئے وفادار نواز شریف کو ہی 2013ء میں حکومت دی۔
ان پوری دو دہائیوں میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے درون خانہ اختلافات اور چپقلش شدت پکڑتی گئی۔ امریکہ کے ساتھ بھی ڈبل گیم کرتے ہوئے بظاہر دہشتگردی کو ختم کرنے کی خاطر پیسے امداد کی صورت میں بٹورے جاتے رہے جن سے جرنیلوں سے لے کر ملک کی تمام حکمران اشرافیہ نے اپنی تجوریاں بھریں۔ اس عرصے میں بھی فوج کے اندر مختلف دھڑے موجود تھے لیکن وہ کھل کر ایک دوسرے کے مدمقابل نہیں آئے اور مشترکہ مفاد کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے وسیع انوسٹمنٹس جاری رہیں اور ان کی عیاشیاں بڑھتی ہی گئیں۔ ساتھ ہی ان کو ٹکڑوں پہ پالنے والا مالک امریکہ خود اپنے معاشی بحران کی وجہ سے کمزور ہوتا جا رہا تھا۔
ن لیگ کے آنے سے بھی عوام کے حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ مہنگائی، بیروزگاری، قرضوں، ریاستی جبر، لوٹ مار اور کرپشن کی نئی تاریخ رقم کی گئی۔ اب کئی بار اقتدار میں آنے والی پارٹیوں کی عوامی حمایت بہت کم ہو چکی تھی۔ 2018ء کے الیکشنز میں بڑے پیمانے پر دھاندلی اور نتائج میں ردوبدل کر کے کسی طرح عمران خان کو حکومت کی باگ دوڑ سنبھالنے کے موقع سے نوازا گیا۔ اس کی سماجی بنیادیں مڈل کلاس نوجوانوں میں مسلسل شدت پکڑتی تبدیلی کی خواہش میں پیوست تھیں۔ یہی میسج دیا گیا کہ نیا چہرہ ہے اس کو موقع دیا جائے، کچھ بہتر ہی کرے گا۔
تحریک انصاف اپنے جنم سے ہی اسٹیبلشمنٹ کا پروجیکٹ رہی ہے، مزدور دشمنی میں اپنا مقام آپ ہے، مفاہمت اور یو ٹرن اس کے خمیر میں شامل ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں شامل اور باہر اسٹیبلشمنٹ کے پکے ٹھکے، جدی پشتی مریدین ”الیکٹیبلز“ کو تحریک انصاف میں شامل کیا گیا۔ اسی امیر اور غریب پر مبنی نظام میں رہتے ہوئے ایک کروڑ نوکریاں اور گھر، کرپشن کا مکمل خاتمہ، آہستہ آہستہ ترقی، خیراتی اداروں کی مدح سرائی سمیت مذہبی چورن اور پاکستانیت جیسے جذباتی نعروں کا راگ الاپا گیا۔ بھلا اسٹیبلشمنٹ کی اپنی پیدا کردہ پارٹی کیسے عوام دوست ہو سکتی ہے؟ دراصل اس پارٹی کو حکومت میں لانے کامقصد عوام کے شعور میں رونما ہونے والی انقلابی تبدیلیوں کو اسی نظام کے دائر ے میں رہتے ہوئے کنفیوز کرنا بھی تھا۔ کیونکہ اسی دوران ملک بھر کے مختلف عوامی اداروں کے محنت کشوں کی ہڑتالیں، دھرنے، احتجاج اور مظاہرے ایک معمول کی صورت اختیا ر کر گئے تھے۔ مزدور تحریک میں نوے کی دہائی والا جمود ٹوٹ چکا تھا اور محنت کش طبقہ میدان عمل میں آ چکا تھا۔ ایک بہت بڑے سماجی دھماکے کے خوف سے گھبراتے ہوئے عمران خان کو ایک نجات دہندہ بنا کر پیش کیا گیا۔ حتیٰ کہ اس کی الیکشن کمپیئن اور تقریروں سے بھی مزدور دشمنی جھلکتی ہوئی نظر آئی۔
محنت کشوں کی بجائے مڈل کلاس اور بالخصوص نوجوانوں میں ان کھوکھلے نعروں نے حمایت حاصل کر لی۔ مگر ان نوجوانوں کی اکثریت نے بھی یہ سپورٹ واقعتا سنجیدگی سے یہی سمجھتے ہوئے دی کہ پاکستان تحریک انصاف یہاں کے لوگوں کے حالات بہتر کرے گی۔ پاکستان میں پچھلے چالیس سالوں سے طلبہ یونین پر پابندی ہونے اور بائیں بازو کی انقلابی سیاست کے منظر عام پر نہ ہونے کی وجہ سے ان نوجوانوں میں سیاست، معیشت، ریاست، سماج اور سامراج کی ناپختہ سمجھ کے باوجود ان میں تبدیلی کی پیاس بہرحال موجود تھی، جس کو میڈیا اور تجزیہ نگاروں نے جان بوجھ کر منظر عام سے غائب کیے رکھنے کی ناکام کوشش کی۔ بعد ازاں ان کو طنزاً ”یوتھیا“ کے لقب سے نواز دیا گیا۔
دھوکے اور سیاسی انجنیئرنگ کے ذریعے عمران خان کو تخت نشین کیا گیا مگر ریاست کے گہرے ہوتے بحران پر قابو پانے میں تحریک انصاف بھی مکمل طور پر ناکام رہی۔ الیکشن کمپیئن میں کیے گئے وعدوں میں سے کوئی ایک بھی وفا نہیں ہو پایا۔ انتظامی امور سرانجام دینے میں بھی یہ پارٹی دوسری پارٹیوں جیسی ہی ثابت ہوئی، کرپشن کے ریکارڈ توڑ دیے گئے۔ آئی ایم ایف کی ایماء پر مہنگائی اور ٹیکسوں کی صورت میں محنت کشوں اور عوام کی کھال ادھیڑ دی گئی، اپنی سابقہ تقریروں میں عمران خان نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف سے بھیک مانگنے کی بجائے خودکشی کر لوں گا لیکن اس کی ناک سے لکیریں کھینچوا کر آئی ایم ایف نے قرضے کا پروگرام جاری کیا، اس کے باوجود عمران خان نے اپنے وعدے کے مطابق خودکشی نہیں کی اور پہلے سے بدحال عوام کے منہ سے نوالہ چھینتے ہوئے آئی ایم ایف کی عوام دشمن پالیسیوں کے تحت قرضہ لیا اور غریبوں کو خودکشیاں کرنے پر مجبور کر دیا۔
اس عرصے میں خودکشیوں کے اعداد و شمار دیکھ کر انسان پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے۔ اسی طرح خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی آبادی کی شرح میں بھی کئی گنا اضافہ دیکھا گیا۔ تنخواہوں میں کٹوتیاں، بے روزگاری میں تاریخی اضافہ، صحت کارڈ کے ڈرامے کے تحت سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کے عمل کا آغاز، تعلیمی فیسوں میں اضافے اور طلبہ یونین پر پابندی برقرار رکھنے، احتجاج کرنے پر جبر کا بازار گرم کرنے، اظہارِ رائے پر قدغنیں، مظلوم قوموں کے نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں اور قتل کی تعداد میں اضافہ، عوامی اداروں کو کوڑی کے داموں سرمایہ داروں کو بیچنا، ضروریات زندگی کی مصنوعی قلت اور ذخیرہ اندوزی، سٹیٹ بینک جیسے اہم ترین ملکی ادارے کو آئی ایم ایف کے حوالے کر دینا، سرمایہ داروں اور فیکٹری مالکان کو کھربوں روپے کی ٹیکس چھوٹ اور سبسڈیاں عطا کرنا اور اسلام آباد میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے اور دیگر مطالبات کے لیے کیے گئے احتجاجوں پر بدترین جبر ایسے سیاہ باب ہیں جو تحریک انصاف نے رقم کیے۔ کرونا وبا کے دوران مگرمچھ کے آنسو بہانے اور منافقت کی انتہا برپا کر دینا ایک الگ ہی داستان ہے۔ یہاں کا محنت کش طبقہ کبھی بھی ان جرائم کو معاف نہیں کر سکتا اس کا بدلہ ضرور لیا جائے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ محنت کش طبقہ صرف ایک فرد سے نہیں بلکہ پورے سماجی نظام کو اکھاڑ کر ہی بدلہ لیتا ہے۔
پی ٹی آئی کی پالیسیوں کے تھپیڑوں نے محنت کشوں اور نوجوانوں کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ تحریک انصاف بھی دوسری پارٹیوں کی طرح ارب پتیوں اور اشرافیہ کے ہی مفادات کا تحفظ کرتی رہی کیونکہ یہ عوام اور محنت کش طبقے کی پارٹی نہیں بلکہ ارب پتیوں اور سرمایہ دار طبقے ہی کی پارٹی ہے۔ محنت کش اور غریب عوام کے معیارِ زندگی کی گراوٹ میں اضافہ ہوا۔ بالخصوص سنجیدہ اور حقیقی تبدیلی کے خواہاں نوجوانوں نے دوسری پارٹیوں کی طرح تحریک انصاف کی حمایت کو بھی خیرباد کہہ دیا اور انقلابی نظریات کی تلاش ان میں پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی۔ عمران خان عوام کے ساتھ کیے گئے جھوٹے وعدوں اور اپنے عوام دشمن کردار کی وجہ سے اقتدار کے آخری عرصے میں پاکستان کا غیر مقبول ترین حکمران بن گیا۔
اس کے برعکس عمران خان کی شخصیت پرستی اور ’پرسنیلٹی کلٹ‘ کا شکار ہونے والی تعفن زدہ اور پچھڑی ہوئی نوجوان پرتوں کو اس پارٹی کی دوسری پارٹیوں سے یکسانیت سرے سے نظر ہی نہیں آئی یا پھر یوں کہیے کہ وہ دیکھنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ وہ پھر بھی یہی کہتے رہے کہ یہ پارٹی باقیوں سے بہتر ہے! امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد واپس آ کر عمران نے کہا کہ آج میں نے 1992ء میں کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنے سے بڑا کارنامہ سرانجام دے دیا ہے۔ اپنی نسبتی کمزوری کے باعث امریکہ جب افغانستان سے خجالت آمیز شکست کے بعد وہاں سے دم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہوا تو عمران خان نے نیو یارک ٹائمز میں ایک آرٹیکل لکھ کر امریکہ کے جانے کو اس پورے خطے کے اندر امن کی بربادی سے تشبیہ دی اور امریکہ سے یہاں پر اپنے سامراجی پنجے گاڑے رکھنے کی منت سماجت کی۔ یہ ہے اس کی امریکی سامراج سے دشمنی کے ڈھکوسلے کی حقیقت! یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستانی ریاست اس وقت تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہے اور اس میں ریاستی اداروں کی آپسی لڑائیاں اب واپس پہلے والے مقام پر نہیں آ سکتیں بلکہ صورت حال پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہونے کی طرف جائے گی۔
عمران خان کو ابھی بھی اسٹیبلشمنٹ کے فیض حمید والے دھڑے کی حمایت حاصل ہے جو کہ اسٹیبلشمنٹ کے برسر اقتدار دھڑے کا ہی مخالف چہرہ ہے۔ عمران خان اور اس کی ڈوریاں ہلانے والوں کی مرضی کے برخلاف جب چیف آف آرمی سٹاف متعین کیا گیا تو لڑائی میں شدت کھل کر سامنے آ گئی۔ اس لیے تحریک انصاف کو اسٹیبلشمنٹ کا حقیقی دشمن قرار دینا خود کو دھوکے میں رکھنے کے مترادف ہے۔ لینن نے کہا تھا کہ ’آپ کو سیاست میں دلچسپی ہو یا نہ ہو مگر سیاست کو آپ میں بہت گہری دلچسپی ہے۔‘
لہٰذا عمران خان کے ذاتی طور پر ایماندار ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے اگر اس کے سیاسی فیصلے عوام دشمن ہی ہیں۔ اس نظام کے اندر ایماندار اور دیانتدار رہنے کے باوجود بھی سیاسی فیصلے عوام دشمن ہی لینے پڑتے ہیں کیونکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام مٹھی بھر اشرافیہ کو نوازنے کا ہی نظام ہے۔ اس نظام کو بچانے والے انسان دشمن لوگ کبھی بھی وفادار اور انسان دوست نہیں ہو سکتے۔ 9 مئی کے واقعہ کے نتیجے میں تحریک انصاف پر کیے جانے والے ریاستی کریک ڈاؤن کے بعد تحریک انصاف کے ”بڑے بڑے“ قائدین یکے بعد دیگرے توبہ تائب ہوتے ہوئے نظر آئے اور عوام دشمن تحریک انصاف کا شیرازہ بکھر گیا۔ جس سے سرمایہ دارانہ نظام کا سیاسی کھوکھلاپن اور منافقت واضح ہو جاتی ہے کہ یہ سیاستدان جب آپس میں ہی مخلص نہیں ہیں تو عوام سے ان کی نفرت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا۔
حالیہ الیکشنز میں پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو زیادہ ووٹ ملنے پر پی ٹی آئی کے دوبارہ احیا کا سوچنے والے سیاسی نابالغی کی بیماری کا شکار ہیں۔ اس حمایت کے پیچھے دوسری پارٹیوں سے اور اسٹیبلشمنٹ سے عمومی نفرت کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس وقت جو بھی اسٹیبلشمنت کو زیادہ ننگی گالیاں دے گا اس کی حمایت کے امکان بڑھ جائیں گے۔ یہ ووٹ حُبِ علی میں نہیں بلکہ بغضِ معاویہ کی بنیاد پر پی ٹی آئی کو دیے گئے ہیں۔ آنے والے عرصے میں عین ممکن ہے کہ کٹ ٹو سائز کر کے عمران خان کے لیے اس نظام کے اندر کوئی گنجائش نکالی جائے۔ کیونکہ اس وقت فوج کے اندر کی لڑائی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور کوئی بھی دھڑا حتمی فتح حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ لہٰذا دو دھڑوں کی آپسی لڑائی میں عوام کا قتل عام بڑھے گا یا پہلے کی طرح جرنیلوں اور افسروں کو کورٹ مارشل کے تحت سزائیں دی جائیں گی۔ 9 مئی کے واقعے کے بعد سے کئی نوجوان سیاسی کارکنان جیلوں میں اذیت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان پارٹیوں کے قائدین کو ان کی کوئی فکر ہی نہیں۔ یہ سارا کھیل حکمران طبقے کا آپسی کھیل ہے جس میں یہ ذاتی مفاد کے لیے کتوں کی طرح لڑ رہے ہیں۔ ان دونوں دھڑوں میں کوئی بھی عوام کے دکھ درد کا مداوا کرنے والا نہیں ہے۔ امیروں اور سرمایہ داروں کی چاپلوسی کرنے والے انسان نما بدترین جانوروں سے بہتری کی بے وقوفانہ خواہشات سے نکل کر اب سنجیدہ نوجوان اس نظام کا مکمل خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔
سوشلسٹ انقلاب ہی واحد حل ہے!
منافع پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام پاکستان کی طرح عالمی سطح پر بھی بحرانات، جنگوں اور آفتوں کو جنم دے رہا ہے۔ پاکستان جیسے پسماندہ ملک کو تو چھوڑیں، امریکہ اور یورپ کے ترقی یافتہ ممالک بھی سیاسی، ریاستی اور معاشی بحران کی جکڑ میں ہیں۔ پوری دنیا میں اس وقت نوجوان اور محنت کش کمیونزم کے انقلابی نظریات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام اس سماج کے اور انسانی ترقی کے راستے کی رکاوٹ بن چکا ہے۔
کشمیر میں آٹھ ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے کہ وہاں کے لوگوں نے بجلی کے بل ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان میں بھی لاکھوں لوگوں نے گندم کی سبسڈی کی کٹوتی کے خلاف چلنے والی تحریک کی بدولت شاندار حاصلات جیتی ہیں۔ بلوچ عوام میں بھی جبری گمشدگیوں اور ریاستی جبر کے خلاف تاریخ ساز تحریک جاری ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ اور ’اولسی پاسون‘ نامی تحریک کی شکل میں اپنے مطالبات کے لیے لاکھوں لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ پنجاب میں بھی پچھلے سال سرکاری ملازمین اور دیگر عوامی اداروں کے لاکھوں محنت کشوں نے اس نظام کے خلاف زبردست تحریک چلائی اور یہ تمام عوامی تحریکیں موجودہ کسی بھی سیاسی پارٹی کی قیادت میں نہیں چلیں بلکہ یہ سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے روزگاری، غربت اور ریاستی جبر کے نتیجے میں عوام کے غصے کا اظہار ہیں جنہیں عوام نے خود رو طریقے سے آگے بڑھایا اور اس دوران نئی قیادتیں بھی ابھر کر سامنے آئیں۔ اس کے علاوہ ابھی آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق کئی عوامی ادارے جن میں واپڈا، پاکستان پوسٹ، پی آئی اے، ہزاروں سرکاری سکول اور ہسپتال نجکاری کی لسٹ میں شامل ہیں۔ ان اداروں کی نجکاری کے عمل کے نتیجے میں مستقبل میں بھی بھرپور عوامی مزاحمت دیکھنے کو ملے گی۔ عوام کا سیاسی پارٹیوں، عدالتوں، ریاستی اداروں پر سے بھروسہ اٹھ چکا ہے۔ مستقبل قریب میں ایک شاندار طبقاتی لڑائی کا آغاز ہو گا۔
ایسے میں ہمیں کمیونزم کے انقلابی نظریات سے لیس ہو کر سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑتے ہوئے اس خطے میں اور پھر عالمی سطح پر سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ہو گا۔ انہیں انقلابی نظریات پر پاکستان میں بھی ایک کمیونسٹ پارٹی تعمیر کرنی ہو گی۔ محنت کشوں کی قیادت میں سوشلسٹ انقلاب برپا کر کے ہی منافع پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ سوشلزم میں امیر اور غریب کی تفریق کو مٹا دیا جائے گا اور تمام ذرائع پیداوار محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لے لیے جائیں گے۔ تمام سامراجی قرضوں کو ضبط کر لیا جائے گا۔ سماج میں ہونے والی تمام پیداوار انسانوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں صرف کی جائے گی نہ کہ مٹھی بھر لوگوں کے منافع کے لیے۔
سوشلسٹ انقلاب کے بعد ہر شہری کو تعلیم، روزگار، رہائش، لباس، صحت اور دیگر تمام بنیادی ضروریات مہیا کرنا مزدور ریاست کی ذمہ داری ہو گی جو ہر شہری کو مزدور ریاست کی جانب سے بالکل مفت فراہم کی جائیں گی اور اس طرح سماج میں عوام کے تمام مسائل کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ بھوک، ننگ، لاعلاجی، بے گھری اور جہالت جیسی اس نظام کی دی ہوئیں سماجی بیماریوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا جائے گا۔ آؤ ساتھیو مل کر ایسے سماج کی تعمیر کی جدوجہد کریں۔
چہرے نہیں نظام کو بدلو!