کشمیر: سحرش کو انصاف دو، مختلف شہروں میں احتجاج

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس ، کشمیر|

حق بات پہ کوڑے اور زنداں!
یوں تو سماج میں ہر روز محنت کش طبقے پہ ظلم اور جبر کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں لاکھوں کی تعداد میں عام لوگوں کو کسی نہ کسی جبر کا نشانہ نا بنایا جاتا ہو اور وہ جبر کرنے والے انسان نما بھیڑیے سماج میں ہونے والی ہر ناانصافی کو اپنی کامیابی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر جس نظام زر کے اندر ہم زندگی گزار رہے ہیں اس میں محض منافع اور شرح منافع سے ہٹ کر نہیں سوچا جاتا۔ جہاں کوئی چیز اس لیے نہیں پیدا کی جاتی کہ اس سے اس کے استعمال کرنے والے کو کتنا فائدہ پہنچے گا بلکہ اس لیے پیدا کی جاتی ہے کہ اس سے منافع کتنا حاصل ہو گا۔ اس نظام زر نے انسان سے فطری محبت اور احساس چھین لیا ہے۔

یہ غلیظ و بدبودار سماجی نظام اور ریاست آج یہاں بسنے والے لاکھوں انسانوں کو ایک معیاری و باوقار زندگی دینے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے۔تعلیم کو کاروبار بنا دیا گیا ہے، جیسے تیسے کر کے نوجوانوں کی اقلیت تعلیم مکمل کر بھی لے تو ان کا مستقبل سہل نہیں ہو جاتا بلکہ پہلے سے کٹھن ہو جاتا ہے اور روزگار کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں لیکن پھر بھی ان میں سے بہت ہی کم لوگ ہوتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ نا ہونے کے برابر لوگ ہیں جنہیں با عزت روزگار ملتا ہے۔ ایسے میں اکثریتی نوجوان اس غلاظت کی زندگی سے تنگ آ کر غلط راستے پہ نکلتے ہیں۔ کچھ نشے کی جانب رجوع کرتے ہیں اور کچھ روز کے مرنے سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور کچھ ان مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے ان سے لڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

مظفرآباد میں ہونے والے واقع کی جتنی مزمت کی جاے کم ہو گی۔سحرش سلطان جو کہ این ٹی ایس میں ٹاپ کرنے کے باوجود بیوروکریسی کی ذاتی تقرری کی بھینٹ چڑھی اور اپنا حق لینے کے لیے احتجاج کا راستہ اپنایا جو کہ ہر شہری کا حق ہے جس پر مظفرآباد کی پولیس نے اسے اور اس کے اقربا کو گرفتار کر لیا۔ بنیادی طور پر یہ عمل ریاست کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ہر شہری کو تعلیم، علاج اور روزگار مہیا کرے جو آئین میں بھی موجود ہے۔ نہ کہ شہریوں کے حقوق کو جبر کے ذریعے کچلے۔ 
اس واقع کے بعد سوشل میڈیا پر نوجوانوں کا غم و غصہ سامنے آیا اور نوجوانوں نے اپنے طور پر اس عمل کی سخت مزمت کی اور مختلف علاقوں میں طلبہ نے اور عام لوگوں نے مل کر اس عمل کے خلاف مورخہ 15جنوری 2019ء کو احتجاج بھی کیے۔ جن میں مظفرآباد جامعہ کشمیر کے طلبہ ، باغ ڈگری کالج کے طلبہ، عباسپور کالج کے طلبہ ، راولاکوٹ یوتھ فارم، سول سوسائٹی اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے مل کر احتجاج کیا۔ جس کی وجہ سے حکومت کو مجبور ہو کر اس معاملے کو جلد از جلد حل کرنے کی یقین دہانی کروانی پڑی۔

پروگریسو یوتھ الائنس مطالبہ کرتی ہے کہ میرٹ کی پامالی کرنے والوں کو اور ان پر جبر کرنے والے افسروں کو سامنے لا کر ان کو سزا دی جائے اور تمام شہریوں کو با عزت روزگار مہیا کیا جائے یا بے روزگاروں کوبے روزگاری الاؤ نس دیا جاے۔

ایک کا دکھ، سب کا دکھ!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.