|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|
وباء کے ان سخت ترین دنوں میں جب دنیا کی ساری بڑی معیشتیں شدید بحران سے گزر رہی ہیں اور لوگ ملازمتیں گنوا کر گھروں میں قید، زندہ رہنے کی لڑائی لڑ رہے ہیں، ان دنوں میں پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں پرائیویٹ یونیورسٹیاں پیسے بنانے کی دوڑ میں لگی ہیں۔
یو سی پی (یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب) کے سربراہان جہاں آن لائن ایجوکیشن کے نام پر سٹوڈنٹس کے ساتھ شعبدہ بازی کر رہے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ وہ ناجائز فیسوں اور ٹیکسز کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ کچھ روز پہلے حکومت نے فیسوں میں 20 فیصد کمی کا اعلان کیا تھا لیکن یو سی پی کے سربراہان اس کو مکمل نظر انداز کر چکے ہیں کیوں کہ یو سی پی کے مالک میاں عامر ہمارے ملک کے بڑے بزنس مافیا ہیں اور دنیا نیوز چینل کے بھی مالک ہیں، اس لیئے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ آزادی صحافت کی باتیں کرنے والوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے جب تعلیم کے کاروبار اور لوٹ مار کی بات آتی ہے، جس سے میڈیا کا حکمران طبقے کی دلالی کا کردار واضح ہو جاتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طلبہ جب ادارے کے وسائل (لیب، بجلی، پارکنگ، انٹرنیٹ) استعمال ہی نہیں کر رہے تو ان کی فیس مانگنے کا کیا جواز ہے ادارے کے پاس؟ اس ساری صورت حال میں جب سٹوڈنٹس نے فیس کا بائیکاٹ کر دیا ہے تو ادارے کی طرف سے بچوں کو دھمکی آمیز ای میلز موصول ہو رہے ہیں کہ اگر آپ فیس نہیں دیں گے تو ہم آپ کو کلاسز سے نکال دیں گے اور آپ امتحانات دینے کے اہل نہیں ہونگے! اس فعل کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ ادارے جو اپنے سیمینارز میں یہ راگ الاپتے نظر آتے ہیں کہ ہم معیار تعلیم کے لیئے ہر دم کوشاں ہیں اور والدین کو بچوں کے روشن مستقبل کے سبز باغ دکھاتے ہیں وہ سب جھوٹ ہے۔ حقیقت میں ان اداروں کو بچوں کے مستقبل سے کوئی سروکار نہیں، انہیں بس پیسہ بنانے سے مطلب ہے۔
طلبہ کی طرف سے اس اقدام کے خلاف احتجاج کی کال دی گئی ہے اور بہت بڑی تعداد میں یو سی پی کے طلبہ سوشل میڈیا پر احتجاج کر رہے ہیں۔
پروگریسو یوتھ الائنس، یو سی پی انتظامیہ کے طلبہ دشمن اقدامات کی شدید مذمت کرتا ہے اور طلبہ کے مطالبات اور ان کے حق میں احتجاج کی مکمل حمایت کا اعلان کرتا ہے۔ اسی طرح ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب یا اس جیسے دیگر پرائیویٹ تعلیمی ادارے جو یہ رونا رو رہے ہیں کہ انکے پاس وسائل نہیں ہیں اور خسارے میں ہیں وغیرہ تو حکومت فورا انکے کھاتے کھلوائے، تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ اور اگر کوئی پرائیویٹ تعلیمی ادارہ جھوٹ بولتا ہوا ملے تو فورا اس ادارے کو سرکاری تحویل میں لیتے ہوئے طلبہ اور محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے۔ آج طلبہ یونین کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے، طلبہ یونین کی بحالی کیلئے آج طلبہ کو ایک بھرپور اور منظم ملک گیر تحریک چلانا ہوگی۔