جامشورو: سندھ یونیورسٹی میں فیسوں میں اضافے کے خلاف طلبہ کا احتجاج، کیسے لڑا جائے؟

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، جامشورو|

حالیہ عرصے میں ملک بھر کی یونیورسٹیوں کی طرح سندھ یونیورسٹی جامشورو میں بھی ایسے وقت میں فیسوں میں اضافہ کیا گیا ہے جب مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور اکثریت کیلئے دو وقت کی روٹی پوری کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں اول تو اکثریت آج یونیورسٹی میں داخلہ ہی نہیں لے پا رہی، اور جو طلبہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر بھی رہے ہیں انہیں بے تحاشہ مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس میں ان کے والدین کی بچتیں تو ہوا ہو ہی چکی ہیں اب والدین اس امید پر قرضے لے کر ان کی فیسیں ادا کر رہے ہیں کہ شاید بچے کی نوکری لگ جائے اور کچھ پیسہ آنا شروع ہو۔ جبکہ دوسری طرف بے روزگاری کا سانپ اب اژدھا بن چکا ہے جو نئی نسل کو نگل رہا ہے۔ ایسے ماحول میں سندھ یونیورسٹی کی فیسوں میں اضافہ کھلی بدمعاشی ہے۔

7 اکتوبر 2021ء بروز جمعرات صبح 11 بجے سندھ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی اور ایم فل کے طالب علموں نے فیسوں میں کیے گئے بے تحاشہ اضافے کے خلاف آرٹس فیکلٹی تا سینٹرل لائبریری ایک احتجاجی ریلی نکالی۔ اس احتجاجی ریلی میں ان کا مطالبہ تھا کہ پی ایچ ڈی اور ایم فل کی فیسوں میں ہونے والے اضافے کو فی الفور واپس لیا جائے۔

اس احتجاجی ریلی میں پروگریسو یوتھ الائنس سندھ یونیورسٹی کے کارکنان نے بھرپور شرکت کی اور فیسوں میں کمی کے مطالبے کی بھرپور حمایت کی۔

یاد رہے فیسوں میں اضافے کے خلاف پی ایچ ڈی اور ایم فل کے طلبہ پہلے بھی دو بار احتجاج ریکارڈ کروا چکے ہیں اور یہ تیسرا احتجاج تھا۔ مگر مسلسل احتجاجوں کے باوجود انتظامیہ کے سر پر جوں تک نہیں رینگ رہی اور مسئلہ جوں کا توں موجود ہے۔ یہاں ہمیں ایک سنجیدہ بحث کرنا ہوگی کہ احتجاج کے باوجود بھی انتظامیہ کیوں حرکت میں نہیں آ رہی؟

یہاں ہمیں دو پہلوؤں پر غور کرنا ہوگا، ایک انتظامیہ کے کردار پر اور دوسرا ہماری جدوجہد کے طریقہ کار پر۔ اگر انتظامیہ کی مسلسل ہٹ دھرمی اور فیسوں میں کیے جانے والے مسلسل اضافے پر بات کی جائے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ یہ کوئی صرف سندھ یونیورسٹی کی انتظامیہ کا مخصوص فیصلہ نہیں ہے۔ یہ درحقیقت ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں جاری ایک عمل ہے جس کے تانے بانے حکومتی فیصلوں یعنی تعلیم کے انتہائی قلیل بجٹ، اور آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی مالیاتی اداروں کے ایما پر شعبہ تعلیم کی بتدریج نجکاری کیلئے راہ ہموار کرنے کے ساتھ جا کر ملتے ہیں۔ لہٰذا یہ ریاستی پالیسی کا ہی تسلسل ہے اور مستقبل میں بھی سندھ یونیورسٹی سمیت ملک بھر کی یونیورسٹیوں کی فیسوں میں مزید اضافہ کیا جاتا رہے گا، تو اس احتجاج میں روایتی طلبہ تنظیموں کی جانب سے کیا یہ مطالبہ کہ وی سی استعفیٰ دے حقیقی صورت حال سے بالکل متضاد اور بچگانہ مطالبہ ہے۔ فیسوں میں اضافے کو رکوانے کا واحد طریقہ ملک بھر میں طلبہ کی ایک منظم جدوجہد ہی ہے۔ اب اگر ہم دوسرے پہلو پر غور کریں یعنی ہماری جدوجہد کے طریقہ کار پر تو وہاں بھی ہمیں کچھ کمزوریاں نظر آتی ہیں۔ مثلاً احتجاج میں صرف مختلف طلبہ تنظیموں کے کارکنان کا موجود ہونا جبکہ عام طلبہ کی صفر شمولیت، مستقل جدوجہد کیلئے کسی بھی حکمت عملی اور منصوبے کا مکمل فقدان، ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ کی جدوجہد سے بی ایس کے طلبہ کا کوئی تعلق نہ ہونا اور عام طلبہ کا منظم نہ ہونا وغیرہ۔

یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ عام طلبہ اس جدوجہد میں کیوں شامل نہیں ہو رہے؟ در اصل عام طلبہ روایتی طلبہ تنظیموں سے نفرت کرتے ہیں لہٰذا کوئی بھی ایسا احتجاج جس کی کال ان روایتی طلبہ تنظیموں کی جانب سے دی گئی ہو، اس میں عام طلبہ شریک نہیں ہوتے، جو کہ عام طلبہ کے بلند سیاسی شعور کی غمازی ہے۔

کیسے لڑا جائے؟

ہم سمجھتے ہیں کہ عام طلبہ کو خود منظم ہو گا۔ پوری یونیورسٹی کے طلبہ کو اپنی ایک کمیٹی تشکیل دینا ہوگی جس میں ہر ایک ڈپارٹمنٹ کے طلبہ کی جمہوری نمائندگی موجود ہو، اور ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ سمیت بی ایس کے طلبہ بھی شامل ہوں۔ اس کے لیے عام طلبہ کو پورے کیمپس میں کمپئین کا آغاز کرنا ہوگا۔ اگر ایک ایسی کمیٹی تشکیل پا جاتی ہے جس میں ہر ایک ڈپارٹمنٹ کے طلبہ کی نمائندگی موجود ہو تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کسی بھی مسئلے کے حل کیلئے وہ کمیٹی ایک کال پر پورا کیمپس بند کر سکتی ہے جس میں کوئی بھی طالب علم کلاس میں نہیں جائے گا۔ یہ وہ طاقت ہو گی جو فیسوں میں اضافے سمیت دیگر طلبہ دشمن فیصلے لینے سے پہلے انتظامیہ کو ہزار بار سوچنے پر مجبور کرے گی۔ سندھ یونیورسٹی میں اس کمپئین کا آغاز پروگریسو یوتھ الائنس پہلے ہی کر چکا ہے، جس کے سلسلے میں 21 ستمبر 2021ء کو فیسوں میں اضافے سمیت دیگر مسائل کے حل کیلئے پی وائے اے کی جانب سے سندھ یونیورسٹی میں ایک ریلی بھی نکالی گئی تھی۔ اسی طرح سندھ یونیورسٹی جامشورو کے طلبہ کو ملک بھر کے دیگر تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کے ساتھ بھی ایک منظم رابطے میں آنے کی ضرورت ہے تاکہ ان مسائل کے خلاف ملکی سطح پر ایک منظم جدوجہد کا آغاز کیا جا سکے۔ مگر ہمیں یہاں اس حقیقت سے بھی آگاہ رہنا ہوگا کہ موجودہ عہد میں سرمایہ دارانہ نظام عالمی معاشی بحران کا شکار ہے اور اس بحران سے نپٹنے کی جو پالیسی پوری دنیا کی ریاستوں نے اپنائی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اس بحران کا سارا بوجھ محنت کش طبقے اور عام عوام پر ڈال دیا جائے۔ ایسے میں اگر فیسوں میں اضافے سمیت دیگر مسائل کا بھی مستقل حل نکالنا ہے تو ہمیں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بھی جدوجہد کرنا ہوگی اور ایک انقلاب کی صورت میں سوشلسٹ نظام قائم کرنا ہوگا جس میں تعلیم سے لے کر دیگر تمام بنیادی ضروریات سوشلسٹ ریاست مفت فراہم کرے گی۔

ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ اگر آپ ان مسائل کے مستقل حل کیلئے انقلابی جدوجہد کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو پروگریسو یوتھ الائنس کا حصہ بنیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس کا ممبر بننے کیلئے یہاں کلک کریں اور فارم بھریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.