|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بی زیڈ یو|
پچھلے دنوں بلوچستان یونیورسٹی میں طالبات کیساتھ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے کی جانے والی جنسی ہراسگی کے خلاف طلبہ کے بہت بڑے احتجاج دیکھنے میں آئے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے طلبہ کے حق میں پھر بلوچستان یونیورسٹی کے دوسرے تعلیمی اداروں کے طلبہ نے بھی یکجہتی کے طور پر احتجاج کیے۔ اسی طرح پنجاب یونیورسٹی لاہور میں بھی بلوچستان یونیورسٹی کے طلبہ کے حق میں احتجاج ہوا۔ اسی تسلسل میں آج (18 اکتوبر2019) بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں بھی طلبہ نے بلوچستان یونیورسٹی کے طلبہ کے حق میں احتجاجی ریلی نکالی۔ احتجاجی ریلی یونیورسٹی کے مین کیفے ٹیریا سے شروع ہوئی اور مختلف ڈپارٹمنٹس سے گزرتی ہوئی دوبارہ مین کیفے ٹیریا پر آ کر ختم ہوئی۔ ریلی میں طلبہ کی جانب سے بھرپور نعرے بازی کی گئی۔
پروگریسو یوتھ الائنس اس احتجاجی ریلی کو ایک خوش آئند قدم سمجھتی ہے اور اسے طلبہ کی ملک گیر یکجہتی کیلئے انتہائی مفید سمجھتی ہے۔ مگر یہاں ہمیں اس احتجاجی ریلی کی خامیوں کو بھی زیر بحث لانا ہوگا تا کہ مستقبل میں طلبہ تحریک کو زیادہ جدید بنیادوں پر منظم کیا جا سکے۔
ریلی میں اکثریت بلوچ طلبہ کی تھی۔ اسی طرح ریلی میں ایک بھی طالبہ (Female student) موجود نہیں تھی۔ یہاں ہم یہ واضح کرتے چلیں کہ جنسی ہراسگی ایک ایسا مسئلہ ہے جو آج ملک کے تمام تعلیمی اداروں (بغیر کسی استثنیٰ کے) میں طلبہ کو درپیش ہے۔درحقیقت ہراسگی صرف جنسی ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ کئی اور قسم کی ہراسگی کا سامنا بھی طلبہ کو کرنا پڑتا ہے۔ ویسے تو ہراسگی سماج میں ہر جگہ موجود ہے اور طلبہ میں بھی موجود ہے (ایک دوسرے کیساتھ) مگر تعلیمی اداروں میں ہراسگی کے واقعات کی اکثریت یونیورسٹی انتظامیہ اور پروفیسروں کی جانب سے طالبات کیساتھ جنسی ہراسگی کی صورت میں دیکھنے میں آئی ہے۔ نمبروں کو بنیاد بناتے ہوئے طالبات کو بلیک میل کیا جانا ہر تعلیمی ادارے میں (بالخصوص یونیورسٹیوں میں) معمول بن چکا ہے۔
یعنی کہ سادہ الفاظ میں یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا سامنا پورے ملک کے طلباء و طالبات کو ہے۔ اب یہاں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر مسئلہ ایک جیسا ہے تو پھر لڑائی میں سب ایک ہو کر کیوں نہیں لڑتے؟ کیوں اس احتجای ریلی میں باقی طلبہ شریک نہیں ہوئے؟ کیا باقی طلبہ کو یہ مسئلہ درپیش نہیں ہے؟ ہم نہیں سمجھتے کہ طلبہ کے اس احتجاجی ریلی میں شرکت نہ کرنے کی اصل وجوہات یہ ہیں۔ درحقیقت اس احتجاجی ریلی کی کمپئین یونیورسٹی میں کی ہی نہیں گئی۔ اس کے بارے میں طلبہ کو آگاہ ہی نہیں کیا گیا۔ صرف کونسلوں اور تنظیموں کے طلبہ کیساتھ رابطے کیے گئے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس ریلی کو آخری ریلی نہ سمجھا جائے بلکہ اسے پہلا قدم سمجھا جائے۔ اگلے ہفتے ایک اور احتجاجی ریلی رکھی جائے اور بڑی تعداد میں پمفلٹ چھاپے جائیں جن میں بلوچستان یونیورسٹی کے مسئلے کی تفصیلات سمیت ہراسگی کے خلاف لڑائی اور اس لڑائی کو کامیاب بنانے کے طریقہ کار کے بارے میں لکھا جائے۔ ان پمفلٹس کو یونیورسٹی کے تمام ڈپارٹمنٹس کے طلباء و طالبات میں تقسیم کیا جائے۔ اس طرح ایک بھرپور کمپئین بناتے ہوئے احتجاجی ریلی نکالی جائے۔ اس ریلی کے بعد تمام ڈپارٹمنٹس کے طلبہ کی کمیٹیاں بنائی جائیں۔ ان کمیٹیوں پر ایک مرکزی کمیٹی بنائی جائے جس میں ان تمام کمیٹیوں کے نمائندگان شامل ہوں۔ اس طرح یونیورسٹی کے طلبہ کو منظم کیا جا سکتا ہے۔
ایک بار طلبہ منظم ہو گئے تو پھر کسی پروفیسر یا انتظامیہ کے بندے کی جرات نہیں ہوگی کہ وہ کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے یا کسی کو ہراساں کر سکے، کیونکہ اب اسے اس بات کا اندازہ ہوگا کہ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو ایک کال پر پوری یونیورسٹی کے طلبہ ہڑتال کر سکتے ہیں۔ اسی طرح طلبہ اتحاد کی بنیاد پر نہ صرف ہراسگی کے مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے بلکہ فیسوں میں اضافے، ہاسٹل کے مسائل اور طلبہ کو درپیس دیگر مسائل کا حل بھی نکالا جا سکتا ہے۔
ایک کا دکھ، سب کا دکھ!
طلبہ یونین بحال کرو!