پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکن امین کی بازیابی کےلیے ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس|

Protest All across the country for the release of Amin a Member of PYA

آج سے تقریباً 6 روز قبل پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکن محمد امین کو رینجرز نے بنا کسی ایف آئی آر اور وارنٹ کے ان کے گھر سے اغوا کیا اور تاحال وہ لاپتہ ہیں۔ اغوا کے بعد سے ہر روز امین کے اہلخانہ بارہا تھانوں کے چکر لگا کر ہلکان ہوچکے ہیں مگر کوئی خیر خبر معلوم نہیں۔ اسی طرح پروگریسو یوتھ الائنس کے ارکان سوشل میڈیا پر بھی آواز بُلند کرتے آئے ہیں مگر کسی کے کان پہ جوں تک نہ رینگی۔ اس طرح کے واقعات کے بعد ہمیشہ کی طرح کراچی پولیس نے خود کو بے بس ظاہر کیا اور عندیہ دیا کہ وہ اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتے۔

سوشل میڈیا کمپئین اور قانونی چارہ جوئی کے بے نتیجہ ہونے کے بعد پروگریسو یوتھ الائنس نے ملک بھر میں احتجاج کی راہ اختیار کرنے اور اس غیر آئینی و قانونی اقدام اور سیکورٹی اداروں کی طلبہ و عوام دشمنی کو عوام کے سامنے لے جانے کا فیصلہ کیا۔

اس سلسلے میں اتوار کے دن ملک کے مختلف شہروں جن میں بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، تونسہ، ملتان اور کوئٹہ شامل ہیں، میں احتجاجی مظاہرے ہوئے جس میں محمدامین اور شفقت حسین کی فی الفور بازیابی اور ملک بھر سے جبری گمشدگیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔

احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ سوموار کے دن بھی جاری رہا۔ سوموار 20 جولائی کو حیدرآباد، راولا کوٹ، باغ اور لاہور شہر کے اندر احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا گیا۔

مختلف شہروں سے مظاہرین کا کہنا تھا کہ ریاست ایک طرف عوام سے بنیادی ضروریاتِ زندگی چھین رہی ہے، روز بروز مہنگائی، غربت، بےروزگاری اور لاعلاجی میں اضافہ ہورہا ہے. ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت نے بھی آئی ایم کے پروگرام کو جاری رکھا ہے اور معاشی بحران کا تمام تر بوجھ اس ملک کے غریب محنت کش عوام پر ڈال دیا گیا ہے. افراطِ زر کی شرح آسمان کو چھو رہی ہے اور عوام پر حالیہ بجٹ کے اندر مزید کئی گنا ٹیکس ڈالے گئے ہیں. اسی طرح ایچ ای سی کے بجٹ میں کٹوتی کر کے تعلیمی اداروں کو اپنے اخراجات طلبہ سے فیسوں کی مد میں وصول کرنے کو کہا گیا ہے. اس طرح تعلیم کو مزید مہنگا کر کے لاکھوں طلبہ کو تعلیم کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے.

جو کوئی ریاست کی اس ناکامی اور عوام دشمنی کے خلاف آواز بلند کرے ریاست اس کو اُٹھالیتی ہے۔ امین کا جرم بھی یہی تھا کہ وہ سوال کرتا تھا، آخر لوگ بھوک و لاعلاجی سے کیوں مر رہے ہیں، تعلیم مہنگی کیوں ہے، اور ریاست نے اپنی ناکامی پہ پردہ ڈالنے کے لیے ان آوازوں کا گلہ گھونٹنا شروع کردیا ہے جو سراسر ظلم و زیادتی ہے۔

مظاہرین کا مزید کہنا تھا کہ اگر امین نے کوئی جرم کیا ہے تو عدالت میں پیش کیا جائے، یوں بغیر کسی جرم کے طالب علموں اور سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگی کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہے۔ احتجاجی مظاہرین کا کہنا تھا کہ اگر امین کو جلد از جلد رِہا نہ کیا گیا تو اس احتجاجی سلسلے کو مزید وسعت دی جائے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.