|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس ، ساہیوال|
مورخہ 12 نومبر 2018ء کو گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی کے طلبہ نے فیسوں میں حالیہ ایک ہزار سے 25 سو روپیے اضافہ کے خلاف کالج کا مرکزی گیٹ بند کر دیا۔ احتجاج میں ایسوسی ایٹ انجینئرنگ (DAE تین سالہ پروگرام) کی سول، الیکٹریکل، مکینکل اور دیگر ٹیکنالوجیز اور Btech کے لگ بھگ 2500 طلبہ نے حصہ لیا۔تفصیلات کے مطابق کالج کی فیسوں میں ایک ہزار سے 25 سو روپے تک کا سالانہ حالیہ اضافہ، ٹیوٹا کی جانب سے کیا گیا۔ جس کے بارے میں طلبہ میں غم و غصے کی لہر موجود تھی۔
کالج میں ساہیوال اور گرد و نواح کے دیہات کے طلبہ زیر تعلیم ہیں جو ملک کی ہنر مند افرادی قوت میں بیش بہا اضافہ کرتے ہیں۔ ایک طرف حکومت ہنر مند افرادی قوت بڑھانے کے جھوٹے دعوے کرتے نہیں تھکتی جب کہ دوسری جانب ٹیوٹا جو ٹیکنالوجی کالجز کی ریگولیٹری باڈی ہے اسے اپنا “بوجھ” خود برداشت کرنے کا کہتی ہے۔ ایسی صورت حال میں ٹیوٹا کے پاس اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کے فیسوں میں اضافہ کردیا جائے۔
پاکستان میں یونیورسٹیز کی فیسوں میں اضافہ کے خلاف طلبہ کی ممکنہ مزاحمت کے خطرے کے زیر اثر جامعات میں تو جبر کا عنصر بہت عرصہ پہلے سے دیکھنے میں آ رہا تھا لیکن اب سرکاری کالجز جہاں تعلیم نسبتا سستی تھی وہاں بھی حکومت تعلیم کو مہنگا کرنے کے درپے ہے اور اسی وجہ سے کالجز میں انتظامیہ کا جبر بڑھتا جا رہا ہے۔ ٹیکنالوجی کالج کے احتجاج میں بھی جبر کے خلاف مزاحمت کے عنصر کو دیکھا گیا جب طلبہ یہ بات کرتے پائے گئے کے فیس میں اضافے کیساتھ ساتھ کالج کو کوئی کیڈٹ کالج بنانے کی کیا منطق ہے؟
اس تمام تر جبر کی فضا میں طلبہ نے خودرو انداز میں منظم ہو کر یہ ثابت کر دیا کے وہ مزید بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکے نہیں جا سکتے۔
احتجاج میں کالج انتظامیہ نے طلبہ کو فیسوں میں اضافے اور اس پر طلبہ کی بے چینی سے متعلق ٹیوٹا کے ارباب اختیار کو مطلع کرنے کی یقین دہانی کروائی جس کے بعد طلبہ پر امن طور پر منتشر ہو گئے۔
پروگریسو یوتھ الائنس احتجاجی طلبہ کے ساتھ بھرپور اظہار یکجہتی کرتی ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس پہلے ہی Fees Must End اور طلبہ یونین کی بحالی کا نعرہ لگا رہی ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ فیسوں میں اضافہ اور کیمپس میں بڑھتے ہوئے جبر کی فضا کو طلبہ خود منظم ہو کر اور اپنی یونین میں اپنے حقیقی نمائندوں کے ذریعے ہی شکست دے سکتے ہیں۔