کوئٹہ: فرشتہ کے قتل کے خلاف کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ

|رپورٹ: پی وائی اے، بلوچستان|

پروگریسو یوتھ الائنس بلوچستان کی جانب سے 22 اپریل 2019ء کو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے فرشتہ مومند کے ساتھ ہونے والے انسانیت سوز واقع کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، جس میں کثیر تعداد میں طلباء، نوجوانوں، محنت کشوں اور ترقی پسند سیاسی کارکنوں نے شرکت کی۔

مظاہرین نے مختلف پلے کارڈ اٹھائے تھے جن پر فرشتہ کیساتھ ہونے والے ظلم کیخلاف نعرے درج تھے۔ مظاہریں سے غلام نبی کریمی، عدنان اور پی وائی اے کے صوبائی صدر خالد مندوخیل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فرشتہ کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی اور اسکے بعد اسے قتل کرنا ایسا وحشت ناک واقعہ ہے جس پر انسانیت شرماتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمومی طور پر دنیا میں اور خاص کر پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں ایسے واقعات ایک معمول بن چکے ہیں۔ فرشتہ کے ساتھ ہونے والا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسی درندگی پاکستان میں ہر گلی کوچے میں ہر دن ہوتی رہتی ہے۔ لیکن مخصوص عوامل کی بنا پر کچھ ایسے واقعات تو سطح پر آجاتے ہیں جو اس نظام کا اور اس نظام کے محافظ سرمایہ داروں اور حکمرانوں کا حقیقی بدبودار چہرہ عیاں کر دیتے ہیں لیکن اکثر ایسے واقعات کو دن کی روشنی نصیب نہیں ہو سکتی۔ اسلام آباد کے اندر اس معصوم بچی کے وحشت ناک قتل کے علاوہ اسی ایک ہفتے میں ہی پاکستان کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں بھی اسی طرح کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ راولپنڈی میں پولیس کے غنڈوں کی طرف سے ایک عورت کو بندوق کی نوک پر ریپ کیا گیا، لورالائی اور شکرگڑھ میں جنسی زیادتی کے واقعات رونما ہوئے ہیں، بونیر میں ایک بچی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کرکے اسکی لاش پھینکی گئی، بلوچستان میں ایک اور عورت جس کا شوہر سعودی عرب میں محنت مزدوری کرتا ہے کو گینگ ریپ کرکے اسکا سر کاٹ دیا گیا اور اس طرح دیگر بے شمار واقعات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کی شکست و ریخت کا واضح اظہار ہے۔ جہاں یہ نظام آبادی کی اکثریت کو زندگی اور عزت کا تحفظ نہیں فراہم کر سکتا وہاں یہ انسانوں کی اکثریت کو روزگار، تعلیم، صحت، پانی، بجلی اور گھر جیسی بنیادی ضروریات دینے میں بھی مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ امیر اور غریب کی تقسیم پر مبنی اس سرمایہ دارانہ نظام کے عمومی زوال کی بنیاد پر سماج اخلاقی طور پر بھی زوال پزیر ہو چکا ہے۔ ظلم و جبر اور وحشت کی یہ شکلیں اس نظام کی زوال پزیری کے اثرات ہیں وجوہات نہیں۔ وجہ تو یہ نظام خود ہی ہے۔

جس طرح اس نظام کے مظالم ہر خطے، نسل، قوم اور مذہب سے بالاتر غریب طبقات کو نشانہ بناتے ہیں، اسی طرح اس جبر کا راستہ روکنے کیلئے اس مظلوم طبقے کو مشترک جدوجہد کرنا ہوگی۔ ظلم اور جبر کا کوئی رنگ، نسل، قومیت یا مذہب نہیں ہوتا۔ صرف اسی خوف سے کہ کہیں اس معصوم بچی کیساتھ ہونے والے انسانیت سوز واقعہ کے خلاف مظلوموں میں جڑت نہ بن جائے، ریاست اور اسکا دلال میڈیا اس واقعہ کو مخصوص نسل یا قومیت سے منسلک کرنے کی شرمناک کوشش کرتا ہے تاکہ اس معصوم بچی کے حق میں اٹھنے والی آواز کی گونج عوام کی پھیلی ہوئی اکثریت کے کانوں تک نہ پہنچ پائے اور اسے آخر کار قومیت اور زبان کا مسلۂ بنا کر رفع دفع کیا جائے۔

ہم ریاست کی اس گھناؤنی حرکت کی شدید مذمت کرتے ہیں اور مظلوموں کے اتحاد کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔دوسری جانب ریاست کی اس گھناؤنی حرکت کے رد عمل میں کچھ پشتون قوم پرست بھی اس واقعہ کو افغان مسئلہ بنانے میں لگے رہے (درحقیقت حکمران طبقے کی یہ ریاست بھی یہی چاہتی تھی)۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فرشتہ ایک معصوم بچی تھی جو کسی بھی قوم، مذہب یا نسل سے پہلے ایک انسان تھی اور اسکے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ایک وحشت ناک واقعہ تھا۔ اسی طرح حکمران طبقے کے ٹکڑوں پر پلنے والے بکاؤ میڈیا کی اس گھٹیا حرکت کی بھی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہوگی۔ ظالم کے خلاف لڑائی میں مظلوموں کا اتحاد ہی کامیابی کی واحد ضمانت ہوسکتا ہے۔

پی وائی اے کے صوبائی صدر نے واضح کیا کہ جہاں یہ نظام اور اسکو چلانے والی سیاسی قوتیں اور خاص کر پی ٹی آئی حکومت ناکام ہو چکی ہے وہاں موجودہ سیاسی پارٹیوں میں کوئی ایسا متبادل بھی موجود نہیں جو عوام کے سلگتے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس وقت تمام اپوزیشن پارٹیاں جمہوریت کے نام پر ڈرامہ کر رہی ہیں۔ وہ اس نظام کی ناکامی کی بات نہیں کرتیں بلکہ خود اقتدار میں آنے کی کوشش کررہی ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ باور کرارہے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت سے وہ ہی اچھی طرح اس طبقاتی نظام کا دفاع کرسکتے ہیں۔ لہٰذا انہیں اقتدار میں لایا جائے تاکہ اسی لوٹ مار کو یہ لوگ بغیر کسی روک ٹوک کے جاری رکھیں جو کہ اس وقت پی ٹی آئی حکومت کررہی ہے۔

اس لئے محنت کشوں، نوجوانوں اور مظلوم عوام کو اب جمہوریت کے نام پر بیوقوف بننے کی بجائے خود ہی سیاسی جدوجہد کے اندر آکر اپنی قسمت کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اس نظام کو اور اس کے جرائم اور لوٹ مار کو روکنا ہوگا اور ایک ایسے سماج کے قیام کیلئے جدوجہد کرنی ہوگی جہاں ایک فرد کسی دوسرے فرد کا استحصال نہ کر سکے۔ نہ ہی چند لوگ آبادی کی اکثریت پر جبر کر سکیں۔ نہ پھر مرد، عورت کو غلام بنا سکے اور نہ کسی ایک قوم کے حکمران کسی دوسری قوم کا استحصال کر سکیں۔ یہ ایک انسانی سماج ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.