|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بلوچستان|
مورخہ 24 جولائی 2019ء کو بلوچستان میں بننے والے تین نئے میڈیکل کالجز (لورالائی میڈیکل کالج، جھالاوان میڈیکل کالج خضدار اور مکران میڈیکل کالج تربت) کے سلیکٹڈ طلبہ اور کوئٹہ کی مختلف اکیڈمیوں میں میڈیکل کالجز کے اینٹری ٹیسٹ کی تیاری کرنے والے طلبہ نے ایک شاندار احتجاجی ریلی اور دھرنا دیا۔ سینکڑوں طلباء اور طالبات کی ریلی کا آغاز پریس کلب سے ہوا جو کوئٹہ کی مصروف ترین شاہراہ، ہاکی چوک پر ایک دھرنے میں تبدیل ہوگیا۔ حالانکہ کوئٹہ میں دفعہ 144 نافذ کیا گیا ہے مگر طلبہ اس کی پرواہ کیے بغیر اپنے حقوق کی لڑائی کو سڑکوں پر لڑنے کی طرف ثابت قدمی سے بڑھتے چلے گئے۔ ریلی میں موجود طلبہ نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس پر میرٹ لسٹ کو آویزاں کرنا، نئے میڈیکل کالجز کو رجسٹر کرنا، 2019 اور 2020 کے انٹری ٹیسٹ میں ان تینوں میڈیکل کالجز کو دوبارہ شامل کرنا اور مذکورہ میڈیکل کالجز کو جدید تعلیمی سہولیات سے آراستہ کرنے کے مطالبات درج تھے۔
نئے میڈیکل کالجز کے طلبہ پچھلے ایک مہینے سے کوئٹہ پریس کلب پر کیمپ لگا کر اپنے مطالبات کے حق میں مسلسل احتجاج پر ہیں۔ مگر 24 جولائی کو طلبہ نے حکومت، پارلیمنٹ، عدلیہ، بیورو کریسی اور مختلف سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کی جانب سے انہیں جھوٹی تسلیاں دینے کے عمل سے تنگ آکر مزاحمت کا راستہ اپنایا۔ طلبہ نے ہاکی چوک پر دھرنا دے کر شاہراہ کو ہر عام و خاص کے لیے بند کردیا۔ دھرنے کے راستے سے گزرنے والے تمام سرکاری افسران، ایم پی اے اور وزیروں کی گاڑیوں کو طلبہ نے روکا اور انہیں واپس جانے پر مجبور کیا۔ طلبہ نے حکمرانوں کے خلاف شدید غصے کا اظہار کیا اور نعرہ بازی کرتے رہے۔
پاکستان جیسے پسماندہ سرمایہ دارانہ ملک میں سماجی انفراسٹرکچر شروع سے ہی تباہی کا شکار ہے۔ اس نظام کے اندر کوئی تبدیلی اور ترقی کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے ریاست نے خود کو اس کام سے بری الذمہ قرار دے دیا ہے اور عوام کو بے سروپا چھوڑ دیا ہے۔ اس سماجی انفراسٹرکچر کا ایک حصہ ملک میں موجود تعلیمی ادارے ہیں جن میں سکول، کالج، فنی تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ پاکستان کی نام نہاد آزادی سے لے کر آج تک ریاست طلبہ کی اکثریت کو ایک بہترین تعلیمی ماحول فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ پاکستان میں آج تک طلبہ کے تناسب کے مطابق تعلیمی ادارے تعمیر ہی نہیں ہوسکے۔ یعنی یہاں بہت سارے طلبہ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر تعلیمی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے وہ تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ بلوچستان میں میڈیکل کالجز کا بھی یہی حال ہے۔ صوبے کے واحد میڈیکل کالج ”بولان میڈیکل کالج“ کے بعد تین نئے میڈیکل کالج حال ہی میں تعمیر کیے گئے مگر حکومت اور بیوروکریسی کے خصی پن کی وجہ سے طلبہ اور ان نئے میڈیکل کالجز کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کے بلند و بانگ دعوے تو ہمیشہ حکمرانوں سے سننے کو ملتے ہیں مگر اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
پاکستان کی روز بروز بگڑتی ہوئی معاشی اور سیاسی صورتحال طلبہ کو سڑکوں پر آنے کے لئے مجبور کر رہی ہے اور آنے والے عرصے میں ہمیں ملک بھر میں طلبہ کی خودرو تحریکیں دیکھنے کو ملیں گی۔ بڑھتی ہوئی فیسوں، تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں، ٹرانسپورٹ اور ہاسٹل کا نہ ہونا اور انتظامیہ کی تعلیمی عمل میں بے جا مداخلت، غنڈہ گردی اور دھونس کے خلاف طلبہ میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر شہری کو مفت تعلیم، مفت علاج اور روزگار فراہم کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ ان حقوق کے حصول کے لیے طلبہ کا متحد ہونا ضروری ہے تاکہ اپنے مسائل کے حل کی جدوجہد کو آگے بڑھاتے ہوئے محنت کش طبقے کے مسائل کی جدوجہد کے ساتھ منسلک کر کے اس نظام کے خلاف لڑا جائے۔ اپنے حقوق چھیننے کے لیے ملک بھر کے طلبہ کو سیاسی میدان میں اترنا ہوگا اور اپنے حقوق کی لڑائی کو سائنسی اور نظریاتی بنیادوں پر منظم کرنا ہوگا۔