یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میڈیکل کالجز انٹری ٹیسٹ کے خلاف طلبہ کا متوقع احتجاج، کیسے لڑا جائے؟

|منجانب: پروگریسو یوتھ الائنس|

پنجاب کے میڈیکل کالجز میں داخلے کے لئے منعقد ہونے والے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میڈیکل کالجز انٹری ٹیسٹ کا پرچہ مقررہ دن 20اگست سے پہلے ہی آؤٹ ہو گیا جس پر طلبہ نے شدید غصہ میں احتجاج کا علان کر دیا ہے جو کہ یقیناًایک صحیح فیصلہ ہے۔ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے ترجمان نے ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ مگر یہ کھلا راز ہے کہ امیرزادوں کے لئے ہر سال امتحان سے قبل ہی پرچے گھر پہنچ جاتے ہیں۔

اسی طرح یہی طلبہ پچھلے سال پورے پنجاب کے بڑے شہروں میں فرسٹ ائیر کے غلط نتائج آنے پر سراپا احتجاج تھے۔ احتجاج کے علاوہ اس مسئلے کو عدالت میں لے جا کر بھی دیکھا گیا لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلنے کی وجہ سے بڑی تعداد ناامید بھی ہوئی۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کے ابھی پورا ایک سال بھی نہ گزرا تھا اور طلبہ کے حقوق پر ایک اور حملہ منظرِ عام پر آگیااور یہ ابھی بھی مسئلے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ اب طلبہ کے سامنے سوال یہ ہے کہ آخر کیا کیا جائے؟

کسی بھی مسئلے کا حل نکالنے کے لئے ہمیشہ پہلے مسئلے کو صحیح طرح سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب اس مسئلے کو بھی سمجھنے کے لئے طلبہ کو اس کی بنیادوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں پچھلے کئی سالوں سے تعلیمی نظام میں بہتری آنے کے بجائے بدتری ہی آئی ہے ۔ چند دن پہلے ڈان نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے پچھلے سال کے بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کے لئے مختص کردہ بجٹ کا صرف ایک تہائی حقیقت میں خرچ کیا۔ ویسے تو جو مختص کردہ بجٹ ہوتا ہے وہ بھی شرمناک حد تک کم ہوتا ہے لیکن حکومت وعدہ کیا گیا بجٹ بھی تعلیم پر خرچ کرنے کے بجائے ادھر اُدھر کر رہی ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کو بیچا جا رہا ہے اور کالجوں یونیورسٹیوں کی فیسوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے جس کے باعث محنت کشوں کے بچوں پر تعلیم کے دروازے بند ہوتے جا رہے ہیں۔

دوسری طرف ہم بڑی تعداد میں پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے نئے کمپس ہر طرف کھلتے دیکھ رہے ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف پیسہ کمانا ہے اور حکومت میں بیٹھے لوگ اور سیاستدان ہی ان کے مالک ہیں۔ طلبہ حقوق کی نام نہاد داعی دہشت گرد تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی بڑی تعداد میں نجی تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں سے خوب مال اکٹھا کررہے ہیں۔ اسی طرح کچھ دہائیاں پہلے سرکاری سکول پاکستان کے سب سے اعلیٰ معیار کے مالک ہوا کرتے تھے لیکن آج کوئی بھی بچہ سرکاری سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے بجائے پرائیویٹ سکولوں کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ سب کچھ پچھلے کئی سالوں میں آئی تمام جماعتوں کی حکومتوں کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو کہ اصل میں صرف اور صرف پیسے پر چلنے والے نظام ’سرمایہ داری‘ کی نمائندوں پر مشتمل ہیں۔ یہی حال انہوں نے تمام سرکاری اداروں کے ساتھ بھی کیا ہے جیسا کہ پی آئی اے کو برباد کرنے میں کوئی کسرنہیں رکھی گئی اور وفاقی وزیر جو کہ آج وزیرِ اعظم ہیں،شاہدخاقان عباسی، اپنی ذاتی ایئر لائن (ائیر بلو) کے منافعوں میں اضافہ کرتے رہے۔ اسی طرح بجلی کرائے کے پاور پلانٹس میں پیدا کی جارہی ہے جو کہ سرکاری طور پر بنائے گئے پاور پلانٹس سے بہت زیادہ مہنگی ہے اور ان پاور پلانٹس کے مالکان میں نواز شریف، شہباز شریف، خواجہ آصف اور دیگر وزراء اور بڑے بڑے صنعتکار اور سیاستدان شامل ہیں۔

اسی طرح سرکاری تعلیمی اداروں کی کمی کے نتیجے میں پنجاب کالج، بیکن ہاؤس سکول سسٹم، KIPS سکول سسٹم جیسی تعلیم بیچنے والی دکانیں ہر طرف پھلتی جا رہی ہیں اور یہی وہ ادارے ہیں جن کے منافعوں میں اضافے کے لئے حکومت کی تعلیمی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ یہ تمام ٹیسٹ، جن کے بغیر آج طلبہ کسی اعلیٰ تعلیمی ادارے میں داخلہ نہیں لے سکتے، کا بھی اصل مقصد ان ہی اداروں کے منافعوں کو بڑھانا ہے۔ ان تمام ٹیسٹوں کی تیاری بھی انہی پرائیویٹ اداروں میں کروائی جاتی ہے اور یہ ادارے پیسے دے کر پیپر بھی خرید کر امیر لوگوں کو بیچتے ہیں اور اپنے منافعوں میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔

ان تمام حقائق پر نظر ڈالی جائے تو نظر آتا ہے کہ اصل مسئلہ کسی ایک ٹیسٹ کا یا کسی ایک امتحان کا نہیں بلکہ پورے نظام کا ہے جو کہ منافع کمانے کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ اس مسئلے سے لڑنے کے لئے طلبہ کو اپنے مطالبات پر نظر ڈالنی ہو گی۔ ہزاروں روپے میں دستیاب لیک ہوا پیپر کوئی غریب طالبعلم تو نہیں خرید سکتا بلکہ حکمران طبقے کے تعلق رکھنے والوں کے بچے ہی خرید سکتے ہیں۔ اس لڑائی کے لئے طلبہ کی صفوں میں اتحاد کی شدید ضرورت ہے اور اس کے لئے ناصرف میڈیکل انٹری ٹیسٹ بلکہ ہر طرح کے انٹری ٹیسٹ کے خلاف آواز بلند کی جائے۔

سب سے پہلے تو ان ٹیسٹوں کی ضرورت طلبہ کو نہیں ہے بلکہ حکومت اور سرمایہ داروں کو ہے اس لئے ان تمام ٹیسٹوں کا سرے سے خاتمہ طلبہ کا پہلا مطالبہ ہونا چاہیے۔

میرٹ اور انٹری ٹیسٹ در حقیقت حکومتی نااہلی کو جواز فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اربوں روپے غریب طلبہ سے لوٹے جاتے ہیں۔ اگر آبادی کے تناسب سے تعلیمی ادارے موجود ہوں تو میرٹ اور انٹری ٹیسٹوں کی ضرورت ہی ختم ہو جائے گی۔ ویسے بھیMCAT، ECAT، MDCATاور GAT اور دیگر رنگ برنگے انٹری ٹیسٹ تو چند سال پہلے ہی آئے ہیں اس سے پہلے تک صرف FSc کے نمبروں پر ہی یونیورسٹیوں میں داخلے ملتے تھے۔

اس کے علاوہ طلبہ کے پاس اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے کے لئے پلیٹ فارم ہونا چاہیے جس کے لئے سٹوڈنٹس یونینز پر پابندی کا خاتمہ بھی مطالبات کا حصہ بنائیں۔

مزید برآں طلبہ کو نئی سرکاری یونیورسٹیوں کے قیام کا مطالبہ بھی رکھنا چاہیے جن میں پاکستان کی آبادی کے تناسب سے مسلسل اضافے کی ضرورت ہے۔

تعلیم کے کاروبار پر پابندی کے بغیر طلبہ کے مسائل حل نہیں ہو سکتے اس کے لئے نجی تعلیمی اداروں پر مکمل پابندی بھی مطالبات کا حصہ بنائیں۔ سٹوڈنٹس کو ان مطالبات کو منوانے کے لئے انتھک جدوجہد کرنی ہوگی جس کے لئے طلبہ کو منظم ہونے کی ضرورت ہے۔

پروگریسو یوتھ الائنس تمام طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہے اور اس لڑائی میں ان کے ساتھ ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے۔

One Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.