|رپورٹ: فیصل فیض|
29 جون 2019 ء بروز ہفتہ، کراچی پریس کلب کے باہر فیسوں میں اضافے کی واپسی، طلبہ کے لیے اسکالرشپس اور گرانٹس کی بحالی، تعلیمی بجٹ میں اضافے اور طلبہ یونین بحالی کے مطالبات کے گرد احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاج کی کال پروگریسو یوتھ الائنس اور طلبہ اتحاد کی جانب سے دی گئی تھی جس میں کراچی کے مختلف تعلیمی اداروں کی ترقی پسند طلبہ تنظیمیں شامل ہیں۔
پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے امیر یعقوب، علی برکت اور انعم خان نے تقاریر کیں، جن میں تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں کے تعلیمی اداروں پر ہونے والے اثرات پر بات کی گئی۔ جس میں ایک طرف تو فیسوں میں اضافہ ہوگا تو دوسری طرف رہی سہی سہولیات بھی چھین لی جائیں گی۔ ساتھیوں کا کہنا تھاکہ پاکستان کے طلبہ اس کٹوتی کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ہر سطح پر تعلیم مفت فراہم کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ احتجاج محض آغاز ہے۔ اگر معاشی حملے بند نہ کیے تو اسے ملکی سطح کی طلبہ تحریک میں بدل دیں گے۔ کیونکہ پہلے ہی تعلیمی اداروں میں طلبہ کو ملنے والی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، بوائز ہاسٹل ہیں ہی نہیں اور گرلز ہاسٹل میں بھی بدترین میس اور پانی کی قلت آئے روز کا معمو ہے۔ گزشتہ اور اس سال اگر معاشی بحران کا بہانہ کیا جا رہا ہے تو فیسوں میں اضافہ اور سہولیات میں کمی تو تعلیمی اداروں میں ہر سال کا معمول ہے۔
طلبہ کا کہنا تھا کہ ضرورت تو اس وقت تعلیمی بجٹ میں بڑے پیمانے پر اضافے کی ہے۔ بجٹ کٹوتی حکمرانوں کے طرف سے نئی نسل کے مستقبل پر حملہ ہے جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔
احتجاجی مظاہرہ میں DSF کی جانب سے کلثوم بلوچ، بی ایس او کی جانب سے اشرف بلوچ، بی ایس ای سی کی جانب سے محسن علی، بلوچ کونسل کی جانب سے علی نواز، ڈیموکریٹک یوتھ فرنٹ کی جانب سے پردیپ کمار، سندھی شاگرد ستھ کی جانب سے وجاہت حسین اور آر ایس ایف کی جانب سے ہاتم نے خطاب کیا۔
پروگریسو یوتھ الائنس کے ساتھیوں میں امیر یعقوب، فیصل فیض، گل حسن، علی برکت، لیاقت کلمتی اور انعم خان شامل تھے۔