گوجرانوالہ: علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں طلبہ کو درپیش مسائل

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، گوجرانوالہ|

 

آج کے ترقی یافتہ دور میں ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے ہر ملک میں تعلیم پر یکساں زور دیا جاتا ہے۔ اس میں سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ پیشہ وارانہ اور غیر پیشہ وارانہ تعلیم بھی شامل ہے۔ جب پاکستان کی بات کی جائے تو اس کے ہر شعبے کو کرپشن اور کرپٹ عناصر نے بری طرح متاثر کیا ہے اور کنگال کر دیاہے۔ تعلیم جیسا مقدس شعبہ اور پیشہ بھی ان بد عنوان عناصر سے پاک نہیں۔ اور آج تعلیم سرمایہ دار طبقے کے لیے کاروبار بن چکی ہے، جس کا مقصد طلبہ کی جیبوں پہ ڈاکہ ڈالنا اور پیسے بٹورنا ہے۔

پاکستان میں اکثریت آبادی کے لیے تعلیم کا حصول ہرگزرتے دن کے ساتھ مشکل ہوتا جارہا ہے اور اگر کوئی محنت کرکے کسی طرح تعلیم حاصل کربھی لے تو نوکری کے لیے دربدر کی ٹھوکریں قسمت ٹھرتی ہیں۔
اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو تعلیم کے شعبے کی پسماندگی کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ کوئی بھی سرکاری یونیورسٹی عالمی یونیورسٹیوں کے مقابلے میں دور دور تک نظر نہیں آتی۔

پاکستان کی ایک اہم یونیورسٹی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ہے جو رسمی اور غیر رسمی تعلیم کا ذریعہ ہے۔ اس یونیورسٹی کے طلبہ کو ان گنت مسائل کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر کورس کی کتابوں کی فراہمی جو بذریعہ ڈاک کی جاتی ہے، اکثر طلبہ تک پہنچ ہی نہیں پاتیں یا پھر پہنچتی ہیں تو بہت تاخیر سے جس کا نتیجہ طلبہ کے فیل ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اور اس کے بعد دوبارہ سے فیس کا دردِ سر آن لیتا ہے۔ اور اکثر اوقات طلبہ بددِل ہوکر یا وسائل کی عدم دستیابی کے باعث تعلیم کو ہی خیرباد کہہ دیتے ہیں۔

کتابوں کے علاوہ جو مسئلہ موجود ہے وہ ٹیوٹر کا انتہائی غیر سنجیدہ رویہ ہے۔ طلبہ کی ڈگری انہی ٹیوٹرز کے ہاتھ میں ہوتی ہے مگر ٹیوٹرز اسائنمنٹس کو درست طریقے سے چیک نہیں کرتے اور کئی بار تو ایسے بھی ہوتا ہے کہ بِنا چیک کیے طلبہ کو پاس یا فیل کردیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک مسئلہ یہ بھی درپیش آتا ہے کہ ٹیوٹر مقررہ وقت تک اسائنمنٹس چیک ہی نہیں کرپاتے نتیجتاً مارکس شیٹ پہ نمبر نہیں لگ پاتے ایسے بہت سے کیسز نظر آتے جس میں طلبہ نے اسائنمنٹس جمع کرائیں مگر نمبر نہیں ملے۔ اور اگر کوئی اس زیادتی کے خلاف بولے تو اس کے اگلے سمیسٹرز بھی خطرے میں پڑ جاتے ہیں اس لیے دوبارہ سمیسٹر فیس جمع کروا کر خاموشی سے تعلیم جاری کرنا پڑتی ہے۔ مگر اکثریت والدین کے لیے مہنگائی کے اس دور میں بھاری بھرکم فیسیں بھرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اسی طرح وہ والدین جو روشن مستقبل کا خواب دیکھ کے بچوں کو تعلیم دلواتے ہیں، ان کے لیے بھاری بھرکم فیسیں اور پھر سالہاسال فیسوں میں کئی گنا اضافہ برداشت کرنا ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی طلبہ کو جو کتب فراہم کرتی ہے ان سے امتحانات کی تیاری ممکن نہیں ہوتی جس کے باعث طلبہ کو امتحانات سے متعلقہ کتب باہر سے خریدنا پڑتی ہیں جو ایک اضافی بوجھ بن جاتا ہے۔ اسی طرح علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی طلبہ کو ڈیٹ شیٹ اور مارکس شیٹ بھی گھر پہ بذریعہ ڈاک مہیا کرتی ہے مگر یہ سہولت بھی دردِ سر بن جاتی ہے اور اکثر مقررہ وقت کے بعد ڈیٹ شیٹ گھر آن پہنچتی ہے۔ نتیجتاً طلبہ کو پھر خود آ ن لائن یہ سب کام کرنے پڑتے ہیں۔مگر یہاں بھی مسئلہ آتا ہے کہ بعض اوقات طلبہ کی ڈیٹ شیٹ اور مارکس شیٹ ویب سائٹ پر موجود ہی نہیں ہوتی۔ انتظامیہ کی اس نااہلی کے سبب طلبہ کا امتحان چھوٹ جاتا ہے۔

ایک اور مسئلہ سمیسٹر ورک شاپ کا ہے۔ یونیورسٹی ہر سمیسٹر کی ورک شاپ طلبہ کی سہولت کے لیے ان کے ضلع میں منعقدکرواتی ہے۔غیر حاضری کی صورت میں طلبہ کو دوبارہ ورک شاپ لینا پڑتی ہے۔ورک شاپ جو طلبہ کو متعلقہ کورس کے لیے معلومات اور رہنمائی فراہم کرتی ہے، دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے اساتذہ ورک شاپ کے دورانیے کو اعصاب شکن تصور کرتے ہوئے مقررہ وقت سے پہلے ختم کر دیتے ہیں یا محض حاضری لگا کر نودو گیارہ ہو جاتے ہیں۔اس طرح ورک شاپ دور دراز سے آئے طلبہ کے لیے ناگہانی آفت بن جاتی ہے۔

اگر ہم یونیورسٹی انتظامیہ کی صورتحال دیکھیں تو شدید دونمبری، نوسربازی عام نظرآتی ہے۔ ایک طرف پیسے والوں کے لیے پیسوں کے ذریعے بِنا کچھ پڑھے، گھر بیٹھے ڈگریوں کا حصول بھی ممکن ہے تو دوسری طرف شدید محنت کے بعد بھی محنت کش یا متوسط طبقے کے طلبہ کے لیے ڈگری کا حصول جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ انتظامیہ کے اندر ہمیں اقرباء پروری، لوٹ مار اور کرپشن کا بازار گرم نظر آتا ہے۔ ان تمام مسائل کیخلاف لڑنے کا واحد حل یہی ہے کہ طلبہ ایک پلیٹ فارم پر منظم ہوں اور اس تمام ظلم و زیادتی کے خلاف متحد ہوکر طلبہ یونین کی بحالی کی جدوجہد کریں۔ کیونکہ طلبہ یونین ہی وہ ادارہ ہے جس کے ذریعے طلبہ فیصلہ سازی کے عمل میں حصہ لیتے ہوئے اپنے مطالبات نہ صرف منوا سکتے ہیں بلکہ اپنے فیصلے خود کرسکتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.