لکھنے بیٹھا ہوں تو یوں لگتا ہے
جیسے انگلیوں سے خون ٹپک رہا ہے
ابھی پچھلے سانحے کا درد باقی تھا
ابھی مرنے والوں کا خون تر تھا
ماؤں کے آنسو خشک نہ ہو پائے تھے
کل ہی اپنوں کو دفنا کے آئے تھے
ابھی اس غم میں آنکھ نم تھی
پھر پتا چلا کے سیکڑوں لوگ
آگ میں جل کے مر گئے ہیں
چند پیسوں کے تیل کی خاطر
اپنی جان بھی گنوا بیٹھے
جان کی دولت لٹا بیٹھے
ضمیر فروش لکھنے والوں نے لکھا
کہ مرنے والے بدتہذیب تھے
عقل کے اندھوں کو کون بتائے
کہ بھوک سے تنگ آکر
لوگ تہذیب بھول جاتے ہیں
زندگی کے دکھ یاد رہتے ہیں
باقی ہر چیز بھول جاتے ہیں
کچھ سیاسی درندوں کے بیان سنے
جو اپنی سیاست چمکانے میں لگے تھے
ان کے نزدیک یہ صرف چند ہندسے تھے
انہیں کیا معلوم
کہ کسی سے بچھڑنے کا درد کیا ہے
گھر کا اِک اِک فرد کیا ہے
یہ لوگ کل عید منائیں گے
جو ہوا سب بھول جائیں گے
مگر کتنے گھروں میں سوگ ہوگا
بچھڑنے والوں کا روگ ہوگا
مگر اے اہل وطن!
کب تک یہ ظلم سہو گے
کب تک یوں چپ رہو گے
حاکمِ وقت سے جواب مانگو
ہر موت کا حساب مانگو
حق کی خاطر آواز اٹھاؤ
ہر سانحے کا جواز مانگو
وہ وقت دور نہیں جب
لوگ بھوک سے تنگ آکر
ان کے جسموں کو نوچ لیں گے
حاکموں کو دبوچ لیں گے
جب مظلوموں کا راج ہوگا
جب ظلم سے پاک سماج ہوگا
جب لوگ صبح کی دید کریں گے
اس دن ہم بھی عید کریں کریں گے
(رائے اسد)