ہم اپنے قارئین کیلئے ساحر لدھیانوی کی 38 ویں برسی کے موقع پر، محنت کشوں کے لیے لکھی ہوئی ایک نظم شائع کر رہے ہیں۔
1
وہ صبح کبھی تو آئے گی
ان کالی صدیوں کے سر سے جب رات کا آنچل ڈھلکے گا
جب دکھ کے بادل پگھلیں گے جب سکھ کا ساگر چھلکے گا
جب امبر جھوم کے ناچے گا جب دھرتی نغمے گائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
جس صبح کی خاطر جگ جگ سے ہم سب مر مر کر جیتے ہیں
جس صبح کے امرت کی دھن میں ہم زہر کے پیالے پیتے ہیں
ان بھوکی پیاسی روحوں پر اک دن تو کرم فرمائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
مانا کہ ابھی تیرے میرے ارمانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں
مٹی کا بھی ہے کچھ مول مگر انسانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں
انسانوں کی عزت جب جھوٹے سکوں میں نہ تولی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
دولت کے لیے جب عورت کی عصمت کو نہ بیچا جائے گا
چاہت کو نہ کچلا جائے گا غیرت کو نہ بیچا جائے گا
اپنے کالے کرتوتوں پر جب یہ دنیا شرمائے گی
وو صبح کبھی تو آئے گی
بیتیں گے کبھی تو دن آخر یہ بھوک کے اور بیکاری کے
ٹوٹیں گے کبھی تو بت آخر دولت کی اجارہ داری کے
جب ایک انوکھی دنیا کی بنیاد اٹھائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
مجبور بڑھاپا جب سونی راہوں کی دھول نہ پھانکے گا
معصوم لڑکپن جب گندی گلیوں میں بھیک نہ مانگے گا
حق مانگنے والوں کو جس دن سولی نہ دکھائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
فاقوں کی چتاؤں پر جس دن انساں نہ جلائے جائیں گے
سینوں کے دہکتے دوزخ میں ارماں نہ جلائے جائیں گے
یہ نرک سے بھی گندی دنیا جب سورگ بنائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
2
وہ صبح ہمیں سے آئے گی
جب دھرتی کروٹ بدلے گی جب قید سے قیدی چھوٹیں گے
جب پاپ گھروندے پھوٹیں گے جب ظلم کے بندھن ٹوٹیں گے
اس صبح کو ہم ہی لائیں گے وہ صبح ہمیں سے آئے گی
وہ صبح ہمیں سے آئے گی
منحوس سماجی ڈھانچوں میں جب ظلم نہ پالے جائیں گے
جب ہاتھ نہ کاٹے جائیں گے جب سر نہ اچھالے جائیں گے
جیلوں کے بنا جب دنیا کی سرکار چلائی جائے گی
وہ صبح ہمیں سے آئے گی
سنسار کے سارے محنت کش کھیتوں سے ملوں سے نکلیں گے
بے گھر بے در بے بس انساں تاریک بلوں سے نکلیں گے
دنیا امن اور خوشحالی کے پھولوں سے سجائی جائے گی
وہ صبح ہمیں سے آئے گی
(ساحر لدھیانوی)