امرتا پریتم کے ناول پر بنی ہوئی یہ فلم ہندوستان کے بٹوارے کے زخموں کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ گزشتہ صدی کے اہم ترین واقعات میں سے ہندوستان کا بٹوارہ انتہائی تاریخی واقعہ ہے جس نے اس پورے خطے میں رہنے والے کروڑوں افراد پر ان مٹ نقوش مرتب کیے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ تاریخ کے اس اہم ترین واقع پر بہت سے ادیبوں نے قلم اٹھایا ہے اور ادب کے بہت سے شاہکار منظر عام پر بھی آئے ہیں جو اس عہد کے درد، تکلیف اور اذیت کو گہرائی اور وسعت سے بیان کرتے ہیں۔ انہی میں امرتا پریتم کی پنجابی کی ایک مشہور نظم ”اج آکھاں وارث شاہ نو“ بھی شامل ہے۔ اسی پس منظر میں یہ ناول اور اس پر بنی ہوئی فلم بھی شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس فلم میں نامور اداکارہ ارمیلا نے بھی اپنی زندگی کی بہترین اداکاری کی ہے جبکہ انتہائی قابل اداکار منوج باجپائی نے بھی ہمیشہ کی طرح کمال کی اداکاری کی ہے۔ اس فلم کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں عام افراداور اس وقت کی سماجی زندگی پر اس بٹوارے کے اثرات کو مہارت سے دکھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین کی سماجی حیثیت اور بٹوارے کے ان کی زندگیوں پر اثرات کو بھی گہرائی میں بیان کیا گیا ہے۔ برصغیر میں آج بھی خواتین کو دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت حاصل ہے اور خاندان اور سماج کا جبر آج بھی ان پر بد ترین شکل میں قائم ہے۔ بٹوارے کے وقت بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں تھی اور جہاں اس خونریزی میں ملکوں، زمینوں اور جائیدادوں کے بٹوارے ہوئے اور زمین کا قبضہ ایک مالک سے دوسرے مالک کے درمیان تبدیل ہوتا رہا، اسی طرح خواتین پر بھی حق ملکیت اسی طرح تبدیل ہوتا رہا۔ اس تمام تر سماجی عمل کو اس فلم میں خوبصورت اندازمیں دکھایا گیا ہے اور انسانی رشتوں، احساسات اور جذبات پر اس بٹوارے کے اثرات کھل کر نظر آتے ہیں۔