|رپورٹ:پروگریسو یوتھ الائنس،پشاور|
8 مارچ کا دن عالمی سطح پر محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کی معاشی، سیاسی و سماجی آزادی کی جدوجہد کی یادگار کا دن ہے۔ اس لیے اس دن کو ہر سال محنت کش خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اسی سلسلے میں پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے پورے پاکستان میں سیمینار، ریلیاں، مظاہرے کیے گئے۔ پشاور یونیورسٹی میں اس تاریخی دن کی مناسبت سے پیوٹا ہال میں ایک عظیم الشان سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔
اس پروگرام میں پشاور یونیورسٹی کے مختلف ڈیپارٹمنٹس سے طلبہ و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اسکے علاوہ اساتذہ بھی اس پروگرام میں شر یک ہوئے اور بحث میں حصہ لیا۔ دن 12 بجے پروگرام کا آغاز کیا گیا۔ پروگریسو یوتھ الائنس کے صوبائی آرگنائزر ہلال احمد نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دیے۔ پروگرام اور آئے ہوئے مہمانوں کے مختصر تعارف کے بعد لا ہور سے آئے ہوئے انقلابی رہنما آدم پال کو موضوع پر بات کرنے کی دعوت دی گئی۔
آدم پال نے بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام کے زیرِ اثر پوری دنیا اور خاص طور پر پاکستان میں خواتین کی حالت زار پر تفصیلی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ کس طرح سرمایہ دارانہ نظام کے اندر خواتین کئی قسم کے مظالم کے زیرِ اثر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام خواتین کے اوپر ہونے والے جبر کی اصل بنیاد یں فراہم کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام تجارت اور آزاد منڈی کی منافع خوری کا نظام ہے جس میں صاحب ملکیت لوگ ہی اس زمین کے تمام وسائل اور ذرائع پر قابض ہیں۔ یہ ملکیت کا نظام ہے جس میں زندگی کی بقا کی تمام تر ضروری اشیاء بھی فروخت کرنے کیلئے پیدا کی جاتی ہیں۔ تمام ذرائع پیداوار حکمران طبقے کے افراد کی ذاتی ملکیت ہوتے ہیں۔ عورت بھی چونکہ بچوں کو جنم دیتی ہے جن میں نر بچہ اپنے باپ کی ذاتی ملکیت کو سنبھال کر اس سلسلے کو جاری رکھتا ہے۔ اور اس معاشی حیثیت سے بچے کو جنم دینا بھی ایک پیداواری اور ملکیتی اہمیت حاصل کرجاتا ہے۔ لہذا اس حوالے سے عورت کو بھی پیداوار کے ایک ذرائع کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
آدم پال نے آخر میں بات کو ختم کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں واضح طور پر کہنا پڑے گا کہ یہ ملکیتی حیثیت جس کی آج شکل سرمایہ دارانہ ہے، ہزاروں سال کی تاریخ پر مشتمل ہے۔ جب سے ذرائع پیداوار یا زمین کی ذاتی ملکیت کا آغاز ہوا ہے تب سے عورت بھی مرد کی ملکیت بن گئی ہے۔ اور آج عورت کو اس ملکیتی حیثیت سے آزاد کرانے کیلئے سماج میں موجود ذاتی ملکیت کو ختم کرنا ہو گا۔ جو صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہوگا کہ جس کے بعد تمام ذرائع پیداوار کو ذاتی ملکیت کے شکنجے سے نکال کر عوام کی اجتماعی ملکیت میں لیا جائے گا۔
اس کے بعد پروگرام میں شریک طلبہ و طالبات کی طرف سے مختلف سوالات کیے گئے۔ جن کا جواب باقی مقررین نے دیا۔ ڈیپارٹمنٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز سے پروفیسر ضیاء الرحمن نے پاکستان میں خواتین کی حالت زار پر تفصیلی اعداد و شمار پیش کیے۔ اس کے بعد پروفیسر ڈاکٹرجواد احمد صاحب نے بھی بحث میں حصہ لیا اور اہم نقاط پر بات کی۔ اسکے بعد ریڈ ورکرز فرنٹ پشاور کے رہنما خالد چراغ نے محنت کش خواتین کے عالمی دن کی تاریخی پس منظر، پاکستان اور خطے کے خواتین کو درپیش مسائل اور سویت یونین میں خواتین کو ملنے والی حاصلات پر تفصیلی بات کی۔
اس پروگرام میں طلبہ و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور پروگریسیو یوتھ الائنس کی اس کاوش کو خوب سراہا۔
پروگریسیو یوتھ الائنس کے اس سیمینار میں طلبہ و طالبات کی اس کثیر تعداد اور گرم جوشی کے سا تھ شرکت پی وائی اے کے ترقی پسند انقلابی کردار، خواتین اور نوجوانوں کی طرف سنجیدہ رویے اور ان کے حقوق کی حقیقی جدوجہد کے نتیجے میں ہی ممکن ہوئی۔ پی وائی اے پورے پاکستان میں روایتی نعرہ بازی، لڑائی جھگڑوں، اسلحہ کلچر اور منشیات کی سیاست سے بیزار نوجوان طلبہ و طالبات کو ایک حقیقی سیاسی پلیٹ فارم پر متحد کر رہا ہے۔ اور یہ راستہ حقیقی نظریاتی بنیادوں پر مشتمل سیاسی جدوجہد کا راستہ ہے۔ غیر سیاسی، غنڈہ گرد اور رجعتی عناصر کی طرف سے اس جدوجہد کے راستے میں پی وائی اے کے سامنے ہر قدم پر رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں مگر یہ انقلابی تنظیم ایک انقلابی نظریے کے گرد نوجوانوں کو اپنے حقوق کی جدوجہد کیلئے منظم کررہی ہے۔ یہ سیمینار بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس ملک کے نوجوانوں کو حقیقی انقلابی نظریات سے لیس ہو کر اپنے حقوق کی جدوجہد کیلئے منظم ہونا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہر قسم کے جبر، استحصال اور سماجی نابرابری پر مشتمل اس طبقاتی نظام کو ختم کرنے اور ایک حقیقی انسانی معاشرے کی تعمیر کی
خوبصورت منزل کی طرف جاتا ہے۔
ٓآؤ مل کر چھین لیں اپنا حق لٹیروں سے۔۔۔!
سچے جذبوں کی قسم جیت ہماری ہوگی۔۔۔!
طلبہ اتحاد زندہ باد۔۔۔!