پاکستان: طلبہ تحریک کا تناظراورہمارا کردار

|تحریر: فارس راج|

قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے طلبہ فیسوں میں اضافے کیخلاف ہڑتال پر

طالب علم کسی معاشرے کو سمجھنے کے حوالے سے ہماری درست رہنمائی کر سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستانی ریاست کی مجموعی صورت حال کا عکس یہاں طالب علموں اور نوجوانوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ تازہ ترین مردم شماری کے متنازعہ نتائج سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جس میں نوجوانوں کا تناسب 60فیصد کے لگ بھگ ہے۔ یہ عنصر اس معاشرے اور ریاست کے لیے انتہائی خوشگوار ہو سکتا ہے جومعاشی اور سیاسی میدان میں ترقی کر رہا ہو۔ مگر معاشی اور سیاسی خلفشار کا شکار پاکستانی ریاست کے لیے یہ عنصر ایک سردرد بن چکا ہے۔ حکمران طبقے کے سنجیدہ حلقوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں یہ سوچ کر کہ اگر کسی دن یہ آتش فشاں پھٹ گیا تو۔ ۔ ۔ ؟ یہ غربت کے اس سمندر میں دولت کے جزیروں کو جلا کر بھسم کر ڈالے گا۔ حالات کے تھپیڑے یہاں کے نوجوانوں کو سوچنے سمجھنے کی مہمیز دے رہے ہیں۔ یہ لوگ اب سیکھ اور سمجھ رہے ہیں کہ غربت اور امارت کی اصل وجہ کیا ہے۔ اور وہ ہے یہ سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست۔ اگرچہ اس وقت ان واضح نتائج کا شعور نوجوانوں اور طلبہ کی اکثریت نہیں رکھتی مگر آخر کب تلک ان کو قوم پرستی، فرقہ واریت، صوبائیت اور دیگر چکروں میں الجھا کر سراب میں رکھا جاسکتاہے۔ جلد بہت جلد، سارے ملک کے نوجوان اور طالب علم یہ جانیں گے کہ ان کی ہر محرومی کا ذمہ دار یہ نظام ہے۔

پاکستان میں طلبہ تحریک کا تاریخی پس منظر

پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے کچھ عرصہ بعد ہی یہاں طلبہ سیاست کا بھی آغاز ہوا، جس نے ماضی میں قومی دھارے کی سیاست میں اہم اثرات مرتب کیے۔ ترقی پسند طلبہ تنظیموں ڈی ایس ایف، این ایس ایف، بی ایس او، پی ایس ایف، جے کے این ایس ایف اور دیگر نے نہ صرف طلبہ تحریکوں کی قیادت کی بلکہ بنیادی نرسریوں کا کردار ادا کیاجہاں سیاسی کارکنوں کی بڑی کھیپ تیار ہو کر قومی دھارے کی سیاست میں شامل ہوتی تھی، جس کی کچھ باقیات آج بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ بلاشبہ مذکورہ بالا تنظیموں کی یہ جدوجہد ہماری تاریخ کا سنہرا باب ہے مگر بدقسمتی سے اِس وقت پاکستان کے طلبہ کے سامنے ترقی پسند نظریات کی حامل کوئی طلبہ تنظیم موجود نہیں ہے جو ملک گیرسطح پر طلبہ کو ایک پلیٹ فارم پر منظم کر سکے اور جہاں متحد ہو کر طلبہ اپنے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کر سکیں۔ اس صورت حال میں سوال پیدا ہوتا کہ وہ کیا وجوہات تھیں جن کے باعث بے پناہ قربانیوں اور جدید ترین نظریات کے دعوے پر کاربند رہتے ہوئے بھی مذکورہ تنظیمیں آج یا تو ختم ہو چکی ہیں یا پھر ملک گیر سطح پر طلبہ کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ یہ سوالات اس ناگزیر ضرورت کا تقاضا کرتے ہیں کہ موجودہ وقت میں طلبہ کو ملک گیر سطح پر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے اور مستقبل کی جانب بڑھنے کے لیے ماضی میں کی جانے والی اس جدوجہد کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ یہ سب سے بنیادی اور اولین ضرورت ہے۔

ہمارے روشن خیال، آزاد لبرلز طلبہ سیاست کے عروج و زوال کی بھی عجیب و غریب تاویلیں پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ اس سارے عمل کو عالمی تاریخ کے نقطہ نظر سے دیکھنے سے محروم ہیں، اس لیے پاکستان میں بھی یہ طلبہ تحریک کے متعلق بات کرتے ہوئے اُن معروضی حالات کو فراموش کر بیٹھتے ہیں جو ان تحریکوں کے عروج و زوال کا اصل محرک تھے۔ ان خواتین و حضرات کے نزدیک طلبہ تحریک کے عروج و زوال کی وجہ پھر قیادت ہی بتائی جاتی ہے، ان کے نزدیک طلبہ سیاست کے عروج کی وجہ مضبوط، جرات منداور ذہین و چالاک خصوصیات کی حامل قیادت تھی، اور طلبہ سیاست کی زوال پذیری کو بھی محض قیادت کی کمزوری قرار دے کرتمام ذمے داریوں سے سبکدوش ہو جایا جاتاہے۔ ان میں سب سے زیادہ ریڈیکل خواتین وحضرات جو اپنی بائیں بازو کے ساتھ وابستگی پر اتراتے پھرتے ہیں، اُن کا خاصہ یہ ہے کہ چاہے اس بات کی ضرورت ہو یا نہ ہو وہ ضیاء آمریت کو ہرجگہ گھسیٹ لاتے ہیں کہ طلبہ سیاست کی زوال پذیری کی وجہ ضیاء آمریت کے دوران طلبہ یونین پر لگائی جانے والی پابندی ہے۔ اسی کے ساتھ ہی وہ اپنی مذہب سے بیزاری اور نفرت کا اظہار کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ جب تک لوگوں کو مذہب سے چھٹکارا نہیں دلایا جاتاآگے کی جانب پیش رفت نہیں ہو سکتی، اگر ان کو تھوڑاسا کریدا جائے تو ان کے اندر سے ایک ملاں برآمد ہو جاتا ہے۔ ان دونوں دعوؤں کو دیکھا جائے تو ان کی آڑ میں چند انتہائی ٹھوس حقائق کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ ضیا کی سفاک آمریت سے اس سے زیادہ نہ کم کی توقع کی جاسکتی تھی، ضیاء آمریت تاریخی اعتبار سے ایک ردانقلاب تھا اوراُس کاکردار یہی بنتا تھا کہ وہ ان تمام جگہوں پر حملے کرے جہاں سے انقلابی سوچیں ابھرنے کا امکان موجود ہو، اور اُس نے یہی کیا۔ مگراس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیں ضیا کی سفاکیت کی مذمت نہیں کرنی چاہیے، مگر ضیا کی سفاکیت کے بعد کے عرصے میں مختلف جمہوری حکومتوں کے کردار کے بارے خاموشی ان نام نہاد بائیں بازو کے خواتین و حضرات کی سرمایہ داری کا معذرت خواہ بن جانے کو ظاہر کرتی ہے۔ دوسری مذہبی تنظیموں سے بھی ان کے اختلافات کسی معاشی اورسیاسی پروگرام پر نہیں ہیں بلکہ ان اختلافات کی نوعیت فروعی قسم کے معاملات ہیں۔ جو بنیادی بات یہ لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں وہ یہ کہ ہمارے ہاں طلبہ تحریک کی شاندار روایات کے باوجود اس کی ناکامی کی بنیادی وجہ نظریاتی زوال پذیری تھی۔ جس کی ذمہ داری طلبہ تنظیموں سے زیادہ محنت کش طبقے کے حقوق کی جدوجہد کرنے کی داعی بائیں بازو کی پارٹیوں پر عائد ہوتی ہے۔

بائیں بازو کی مذکورہ تنظیموں کا قیام اُس وقت عمل میں آیا جب ترقی پسند نظریات کی سیاست کو ماسکو اور بیجنگ بیوروکریسی کا گُھن چاٹ رہا تھا۔ اس وجہ سے سوشلزم کے ناقابل مصالحت بین الاقوامیت کے نظریات یہاں تک کبھی پہنچ ہی نہیں سکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ طلبہ تنظیمیں مارکس کے دیے گئے مشہور نعرے ’’دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ‘‘ تک ہی رینگ سکیں۔ مگر ان کی پوری تاریخ گواہ ہے کے عالمی محنت کشوں کو ایک کرنے کے لیے یہ کبھی بھی کوئی سنجیدہ پروگرام نہیں پیش کر سکیں۔ اس وجہ سے طبقاتی سوال ان تنظیموں کے ہاں قومی آزادی کی جدوجہد اور جذبہ حب الوطنی کے ہی تابع نظر آتا ہے۔ اس کے باوجود کہ طبقاتی سوال کو غلط تناظر میں دیکھا اور پیش کیا گیا مگر پھر بھی مذکورہ تنظیمیں اپنے وقت میں دائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کی رجعتی نظریات کی یلغار کے مقابل طلبہ کی بڑی تعداد کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئیں اور دہائیوں تک طلبہ کی روایات کے طور پر موجود رہیں۔ مگر یہ سب اُس وقت تک ہی ممکن ثابت ہوا جب عالمی معروض کا دھارا انقلابی تحریکوں اور انقلابات کی لپیٹ میں تھا۔ بعد ازاں عالمی سطح پرانقلابات کی ناکامیوں اور پسپائیوں کے باعث اور پاکستان میں ضیاء کی آمریت کے شب خون مارنے کے بعد مذکورہ تنظیموں کے پاس وہ نظریاتی بنیادیں ہی موجود نہیں تھیں کہ یہ اُس رجعتی معروض کامقابلہ کرسکتیں۔ آگے چل کر دیوار برلن کے گرنے اور سوویت یونین کے انہدام نے جلتی پر تیل کاکام کیا، جس سے پوری دنیا میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی مزدور، کسان اور طلبہ تنظیموں میں گہری مایوسی پیدا ہوئی۔ اس وجہ سے ہم ان تنظیموں کو تیزی سے ختم ہوتا دیکھتے ہیں یا پھر قوم پرستانہ زوال پذیری کا شکار ہوتا دیکھتے ہیں۔ تب سے لے کر آج تک ان تنظیموں کا عمومی بہاؤ قوم پرستانہ زوال پذیری کی جانب ہی گامزن رہا۔ جس کی وجہ سے یہ مختلف مہم جوئیوں کے ذریعے سماج میں اپنے اثرورسوخ کو قائم رکھنے کی کوشش کرتی رہیں مگر ہر بار ان کو ناکامی کاسامنا کرنا پڑا اور کئی بار اپنے غلط پروگرام اور حکمت عملی کے باعث ریاست کو جبر کا جواز فراہم کرتی رہیں۔ اس سارے عرصے میں عالمی مارکسی رجحان کی مداخلت کے باعث طلبہ کی چند ایک تنظیمیں درست پروگرام اور لائحہ عمل پر منظم ہونا شروع ہوئی تھیں مگر ماضی کی گہری نظریاتی زوال پذیری کی وجہ سے اور قوم پرستانہ تعصب ان تنظیموں کے رگ و پے میں سرایت کر جانے کے باعث مذکورہ تنظیموں کونام نہاد آزاد خیالی، مہم جوئی، گروہ بندی، برادری ازم اور دیگر تعصبات سے پاک نہیں کیا جاسکا۔ اور انہوں نے خود کو پھر سے قوم پرستانہ خول میں بند کر دیا۔ اس شدید نظریاتی زوال پذیری اور لائحہ عمل کے فقدان کی وجہ سے ان کی ٹوٹ پھوٹ تیزی سے جاری ہے، مگر سوال پیدا ہوتا کہ کیا ان تنظیموں کا مستقبل کی انقلابی جدوجہد میں کوئی کردار باقی بچا ہے؟ اس سوال کا جواب اس وقت نہیں میں ہی دیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم کے پی کے، پنجاب اور سندھ تک اپنے تجزیے کو محدود کر لیں تو یہاں پر ماضی میں ترقی پسند نظریات کی سیاست کرنے والی طلبہ تنظیمیں این ایس ایف، پی ایس ایف یا پھر قوم پرست طلبہ تنظیمیں مکمل طور پر ناکارہ ہو چکی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں ہے جو موجودہ وقت میں طلبہ کومذکورہ صوبوں میں ہی ایک پلیٹ فارم پر متحد کر سکے، اسی لیے ہمیں ان تنظیموں کی قیادت کے کردار کو بے نقاب کرناچاہیے، جواپنے اوپر کی جانے والی تنقید کامنطقی جواب دینے کے بجائے اختلاف رائے کے نام پرگالم گلوچ کے بے ہنگم شور تلے اپنی نظریاتی زوال پذیری کو چھپانے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ ان تنظیموں سے جڑے نوجوانوں کو سمجھنا ہو گا کہ سائنسی پروگرام اور لائحہ عمل کے ساتھ خود کو منسلک کرنا اُن کے لیے واحد درست راستہ ہے، اور یہ کام باہر سے نہیں کیا جاسکتایہ فریضہ وہ خود ہی سرانجام دے سکتے ہیں اوردیناچاہیے۔ اس سمت کی جانے والی ہر پیش قدمی کا پروگریسیو یوتھ الائنس کی جانب سے خیر مقدم کیا جائے گا۔ بصورت دیگر ہم نے کئی شاندار عمارتوں کوماضی کے کھنڈرات میں تبدیل ہوتے دیکھاہے۔

موجودہ صورت حال اور طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ

اگرچہ ہمیں طلبہ سیاست کی موجودہ صورت حال پر بات کرنے سے پہلے ان معروضی حالات کا تجزیہ پیش کرنا چاہیے، جن کی کوکھ سے وہ سوالات جنم لیتے ہیں جن کے حل کے لیے طلبہ سیاست کی ضرورت سامنے آتی ہے۔ مگر ہم اپنی بات اس وقت طلبہ سیاست میں سب سے مقبول اور فیشن ایبل نعرے ’’طلبہ یونین کی بحالی‘‘ سے شروع کرنا چاہیں گے۔ ’’طلبہ یونین بحا ل کرو‘‘ یہ وہ مطالبہ ہے جو اس وقت ہمارے دائیں اور بائیں بازو کی تمام طلبہ تنظیموں میں قبولیت حاصل کر چکا ہے۔ اور گزشتہ چند برسوں سے حکمرانوں کے ایوانوں میں بھی گاہے گاہے اس کی گونج سنائی دیتی ہے، کبھی اعلانوں کی شکل میں، تو کبھی قراردادوں کی صورت۔ مگر طلبہ کی اکثریت کے مسائل کیا ہیں؟ کیوں ہیں؟ اور ان کو کیسے حل کیا جاسکتا ہے۔ ان سوالات پر بات ہی نہیں کی جاتی۔ حکمران جان بوجھ کر ان سوالات پر بات نہیں کرتے اور جہاں تک طلبہ تنظیموں کا تعلق ہے تو ان کی حالت انتہائی قابل رحم ہے۔ یہ درحقیقت طلبہ تنظیموں سے زیادہ مختلف سیاسی پارٹیوں کی لوٹ مار کے لیے نوجوانوں کی ریکروٹمنٹ کرنے والی دم چھلہ تنظیمیں بن کر رہ گئی ہیں۔ کچھ تنظیمیں ایسی ہیں جو کسی پارٹی کا براہ راست ونگ نہیں ہیں اور اپنی اس خصوصیت کو ’’آزادانہ تشخص ‘‘ کی مشہور اصطلاح کے طور پر استعمال کرتی نظر آتی ہیں۔ جس کامفہوم یہ ہوتا ہے کہ ہماری تمام جدوجہد طلبہ کے لیے ہے، طلبہ سے شروع ہوتی ہے اور طلبہ پرختم ہو جاتی ہے۔ ان کا یہ کردار اس وقت دھندلا اور غیر واضح شکل میں ہے مگر بغور تجزیہ کیا جائے تو ان کا یہ آزادانہ تشخص کئی طرح کی غلامانہ پیروی کو جنم دیتا ہے۔ یہ یونیورسٹی انتظامیہ اور پروفیسر صاحبان کی بھی خدمات حاصل کرتے ہیں(درحقیقت یونیورسٹی انتظامیہ اور پروفیسر صاحبان ان کی خدمات حاصل کرتے ہیں)اور مختلف علاقوں میں موجود ان کے کارکن اپنے اپنے علاقے میں اثرورسوخ کی حامل سیاسی پارٹیوں سے گٹھ جوڑ کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ اسی طرح سیاسی پولیس سے روابط بھی ان کے لیے باعث فخر ہوتے ہیں۔ ان سب کے سامنے طلبہ کو درپیش مسائل اور اُن سے جڑے سوالات کو رکھا جائے تو فوراً خبطی اور کٹرپن کے طعنے سننے کو ملتے ہیں۔ ہم بھی طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں، مگردیگر مطالبات اور سوالات کے ساتھ۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے لیے طلبہ یونین کی بحالی کا واحد مطالبہ ہی کیوں میدان جنگ بنے؟ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں طلبہ تحریک ضیاء آمریت کی تعلیمی اداروں میں مسلط کردہ رجعت سے برسرپیکار ہو رہی ہو۔ ایک ایسے وقت میں جب رجعت پسند تمام ریاستی پشت پناہی اور فنڈنگ کے باوجود تعلیمی اداروں میں طلبہ کی اکثریت کے لیے قابل نفرت بن کر سامنے آرہے ہوں۔ جس کا واضح اظہار مشال خان کی شہادت کے موقع پر ہوتے ہوئے نظر آیا۔ جب انتہائی دائیں بازو کے علماء کو بھی دفاعی پوزیشن پر جانا پڑا۔ تو ہمارے لیے یہ زیادہ اہم ہو جاتا ہے کہ ہم دہائیوں سے مسلط کردہ ضیائی رجعت سے برسرپیکار ہوتی ہوئی طلبہ تحریک کوآگے بڑھنے کے لیے درست نظریاتی بنیادیں اور لائحہ عمل فراہم کریں، نہ کہ طلبہ یونین کی بحالی کے نام پرمختلف اقسام کے دائیں اور بائیں بازوکے رجعت پسندوں کے ساتھ کسی اتحاد کی دوڑ میں شامل ہوں۔ سوال یہ بھی ہے کہ طلبہ یونین اگر بحال کی جاتی ہیں تو اُن کے فرائض کیاہوں گے؟ 2015ء میں الف اعلان نامی ایک این جی او کے سروے کے مطابق قریباً 50فیصد بچے کبھی اسکول نہیں جا پاتے۔ اور جیسے جیسے تعلیمی درجے پرائمری، مڈل اور میٹرک تک جایا جاتا ہے تو اسکولوں سے باہر رہ جانے والے بچوں کاتناسب بڑھ جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہائر سکینڈری ایجوکیشن سے 85فیصد بچے محروم رہتے ہیں۔ کیا طلبہ یونین کی بحالی کی بے صبری کا شکار ہمارے ان روشن خیال اور مذہبی رواداری کے پرچارک ان بچوں کو تعلیم دلانے کے سوال کو ایجنڈے پر رکھیں گے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ تو پھر سوال ہے کہ اگر طلبہ یونین ان بنیادی سوالات کو ایجنڈے پر نہیں رکھتی تو پھر طلبہ یونین کی بحالی کی جدوجہد کا کردار کیا ہوگا، اور اگر طلبہ یونین بحال ہوبھی جاتی ہیں تو وہ کس کے لیے کام کریں گی؟ وہ بھی ایک ایسی صورت حال میں جب ملک گیر سطح پر طلبہ سیاست کے حوالے سے ایک سنجیدہ پروگرام اور لائحہ عمل کا حامل کو ئی سیاسی پلیٹ فارم ہی موجود نہیں ہے۔ اس صورت حال میں حکمران طبقہ طلبہ یونین کی بحالی کے عمل کو قومی، صوبائی، لسانی اورفرقہ وارانہ تعصبات کے زہر کو آج کی نوجوان نسل کے رگ وپے میں اتارنے کے لیے استعمال کرے گا۔ اس لیے ہماری ذمے داری یہ بنتی ہے کہ ریاستی اداروں کے دیے جانے والے آسروں سے قطع نظر طلبہ تحریک کو واضح سائنسی پروگرام اور لائحہ عمل سے لیس کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کے بنیادی مسائل سے اپنی جدوجہد کا آغاز کیاجائے، جن میں فیسوں میں اضافہ، ایڈمیشن کے دوران میرٹ کی پامالی، سیکیورٹی کے نام پر تعلیمی اداروں میں خوف کی فضا کے خاتمے، ہاسٹلز اور ٹرانسپورٹ کی سہولتوں کی کمیابی، مفت تعلیم اور طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے جیسے مطالبات سے آغاز کیا جائے۔ مگر جہاں ہمیں طلبہ کے فوری مسائل کی جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ شریک ہونا چاہیے وہیں ہماری ذمے داری بنتی ہے کہ طلبہکو یہ باور کرایا جائے کہ اُن کے فوری مسائل کا حل موجودہ حکمرانوں کی تعلیمی پالیسیوں اور اس سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ممکن نہیں۔ دوسری طرف ہمیں اس بات پر بھی واضح ہوناچاہیے کہ اگر طلبہ یونین بحال نہیں بھی ہوتی تو تب بھی طلبہ کو سیاست سے بے دخل نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ عالمی سرمایہ داری کے بحران کے براہ راست اثرات نوجوانوں اور طالب علموں پر مرتب ہو رہے ہیں۔ اور پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ابھرتی تحریکوں میں نوجوان اور طالب علم بڑھ چڑھ کر شرکت کر رہے ہیں۔ پاکستان بھی اسی کرۂ ارض پر واقع ہے اور پوری دنیا میں رونماء ہونے والے واقعات کے اثرات یہاں کے سماج پر بھی پڑ رہے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران تعلیمی اداروں میں فیسوں میں اضافے، نظم وضبط کے نام پر طلبہ کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں، دھونس دھمکیوں، جرمانوں اور طرح طرح کے ٹیسٹوں کے خلاف، نتائج کے خلاف، پیپرز کی آؤٹ سورسنگ کے خلاف طلبہ نے احتجاج کیے ہیں۔ مشال خان کے بہیمانہ قتل کے خلاف پورے ملک میں خودرو طریقے سے طلبہ کی بڑی تعداد احتجاج میں شریک ہوئی جو آنے والے دنوں میں ابھرنے والی طلبہ تحریک کی محض ایک جھلک ہے۔ وہ وقت اب دور نہیں ہے جب پاکستان کے نوجوان اور طالب علم اپنے ماضی کی انقلابی بغاوتوں کی تاریخ کا ادراک حاصل کریں گے اور پوری دنیا میں رونما ہونے والے واقعات سے سیکھتے ہوئے ملک گیر سطح پر ایک ایسی تحریک بپا کریں گے جس کی نظیرملکی تاریخ سے نہیں پیش کی جاسکے گی۔

’’طلبہ تحریک کا تناظر‘‘

2017ء پاکستان کی طلبہ تحریک کے لیے انتہائی اہمیت کا سال رہا۔ اس سال نہ صرف پاکستان میں طلبہ نے مختلف احتجاجوں وغیرہ کے ذریعے سے ایک بڑی تحریک میں اپنی آمد کا پتہ دیا ہے، وہیں عالمی سطح پر بھی پاکستان کی طلبہ تحریک کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیاگیا ہے۔ جب ’’پروگریسیو یوتھ الائنس ‘‘ کو برطانیہ میں مارکسسٹ اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے اپنے بینر پر اتارا۔ یہ بلاشبہ پاکستان کی طلبہ تحریک کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ جو پاکستان کے تمام طلبہ کے لیے ایک اعزاز بھی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ طلبہ قیادت کے نہ ہونے کا جتنا رونا اس وقت ہمارے لبرلز خواتین و حضرات روتے ہیں اتنی بھی کوئی تشویش ناک بات نہیں ہے۔ پروگریسیو یوتھ الائنس نے اس سال ملک بھر میں کنونشنز اور دیگر تقریبات وغیرہ کا کامیابی سے انعقاد کیا ہے اورآنے والا سال ہمارے سامنے زیادہ مواقع اور امکانات لے کے آئے گا۔ جس کے لیے ہم ابھی سے تیاری کر رہے ہیں اورکرنی چاہیے۔ ہمارے پاس درست پروگرام اور لائحہ عمل موجود ہے، مگر اس پروگرام اور لائحہ عمل کو موجودہ صورت حال میں ہرجگہ مسلط نہیں کیا جاسکتا۔ ملک میں حاوی سیاست کی زوال پذیری کے باعث سیاسی تناظر کی پیچیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے، ا س وجہ سے ہمیں ہرصوبے اور شہر میں کام کو آگے بڑھانے کے لیے تخلیقی کام کرنا ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ جس طریقے سے ہم نے ایک شہر میں کامیابی حاصل کی ہو وہ طریقہ دوسرے شہر میں ناکامی کاسبب بن جائے۔ اس لیے طلبہ تحریک میں ہماری مداخلت کا آغاز طلبہ کے فوری مسائل سے ہونا چاہیے مگر اس کو عالمی تناظر سے لیس کر کے ہی ہم متوازن بنا سکتے ہیں۔ اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام رہے تو پاکستان میں سلگتا قومی سوال اوردیگر تعصبات ملک گیر سطح پر ایک پلیٹ فارم کی تشکیل میں رکاوٹ ثابت ہو سکتے ہیں۔ جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں اس وقت بھی ملک بھر میں طلبہ کے چھوٹے بڑے احتجاج وغیرہ ہو رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ہونے والے دھرنوں کی میڈیا میں ہونے والی ’’کچر بچر‘‘ کا اور کوئی فائدہ تو مجھے نظر نہیں آ رہا البتہ اس کے ذریعے محنت کشوں اور طالب علموں کے شعور اور لاشعور میں اپنی طاقت کا احساس ضرور جاگزیں ہوا ہوگا۔ اگر چند سو ملاں پورٹ قاسم کی بندرگاہ سے تیل کی سپلائی روک سکتے ہیں تو محنت کش اور نوجوان کیا نہیں کر سکتے۔ ابھی انتخابات کی آمد آمد ہے اگرچہ انتخابات کے انعقاد اور بالخصوص بروقت انتخابات کے حوالے سے کچھ یقین کے ساتھ نہیں کہاجا سکتا۔ مگرجب تک یہ موجودہ تذبذب کی صورت حال واضح ہوتی ہے، اگر اس عرصے میں طلبہ تحریک ابھرتی ہے تو شاید حکمران کچھ رعائتیں دے سکتے ہیں۔ تاہم انتخابات کے انعقاد کے بعدحکمرانوں کی جانب سے دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کی نجکاری کو ایجنڈے پر رکھا جائے گا۔ اورموجودہ معاشی ابتری کے باعث آنے والے حکمران جارحانہ نجکاری کی پالیسی اپنانے پر مجبور ہوں گے۔ جس کے خلاف طلبہ تحریک کا ردعمل بھی اتنی ہی شدت کے ساتھ سامنے آ سکتا ہے۔ علاوہ ازیں لاتعداد ایسے دیگر عوامل موجود ہیں جو ایک طلبہ تحریک کے ابھار کا موجب بنیں گے۔ طلبہ میں غم و غصہ آئے روزبڑھتا جا رہا ہے کوئی ایک واقعہ ایسی چنگاری ثابت ہو سکتا ہے جو ملک بھر کے طالب علموں اور نوجوانوں کوکسی بڑی تحریک میں دھکیلنے کاموجب بن سکتا ہے۔ بروقت اور درست مداخلت کے ذریعے پاکستان کے طلبہ کو اس نظام اور ریاست کو اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد میں شریک کیا جا سکتا ہے۔ جو ان کے تمام مسائل کا ذمہ دار ہے۔ کوئی جھجک یا شک وشبہ نہیں، مضبوطی، ثابت قدمی، ڈسپلن اورعزم سے آگے بڑھو۔ انقلاب زندہ باد!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.