|تحریر: رانا عمر|
ملکی حالات کے پیش نظر ایک بات تو واضح ہو چکی کہ تمام سیاسی جماعتیں صرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد کے علاوہ کچھ کرنا نہیں چاہتیں۔ دوسری طرف پاکستان کی معیشت دیوالیہ ہو چکی ہے بس اعلان کرنا باقی رہ گیا ہے۔ مگر تمام سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین اس بات کی طرف نہ تو سنجیدہ ہیں اور نہ ہی انہیں اس بات کی فکر ہے ملک کا اور اس کے غریب محنت کش عوام کا کیا حال ہے۔ انہیں اگر فکر ہے تو صرف اور صرف سرمایہ داروں کے منافعوں اور اپنی کرسی کی۔ ہر آنے والی حکومت نے بیرونی قرضے لیے اور ان قرضوں کی ایک پائی بھی عوام پر خرچ نہیں کی گئی مگر ان قرضوں کی واپسی کا سارا بوجھ عوام پر ڈالا جارہا ہے۔ ایک طرف ملکی خزانہ تاریخ کی بد ترین سطح تک آ پہنچا ہے اور دوسری طرف بیرونی قرضوں کی واپسی کے لئے اس سال 23 ارب ڈالر درکار ہیں۔ اس لیے آئی ایم آیف کے منصوبوں پر عمل کر کے عوام پر پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں مہنگائی کے بم گرائے جارہے ہیں۔ حکومت اور اپو زیشن ایک دوسرے پر بہتان لگا کر آنے والے الیکشن کی کمپیئن میں مصروف ہیں اور عوام کی فلاح کیلئے کسی قسم کے اقدام کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی مستقبل قریب میں ایسا کچھ نظر آ رہا ہے۔
کہنے کو تو پاکستان ایک نام نہاد سرمایہ دارانہ جمہوریت ہے مگر آج بچہ بچہ جانتا ہے کہ تمام تر ریاستی پالیسیاں سامراجی ممالک و سامراجی ادارے بناتے ہیں جن پر پھر عمل درآمد کرانے کا ذمہ فوج اور سیاسی پارٹیوں سمیت دیگر ریاستی اداروں کو دیا جاتا ہے جو اپنی دولت میں اضافے کیلئے ان پر عملدآمد کراتے ہیں۔ اس میں بھی فوج کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔ ملک کے اندر کوئی بھی سیاسی پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے بغیر نہ تو اقتدار میں آسکتی ہے اور نہ ہی آگے بڑھ سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کا اقتدار میں آنا اور حکومت سے نکالے جانا اس کی واضح مثال ہے۔ جبکہ دوسری جانب لوٹ مار کیلئے فوج بھی کئی دھڑوں میں تقسیم ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں بھی فوج کے ان دھڑوں میں سے کسی ایک سے وابسطہ ہوتی ہیں۔
عدلیہ بھی ان دھڑوں اور ان سے منسلک سیاسی جماعتوں کی بی ٹیم کے طور پر کام کر رہی ہے اور اپنی من چاہی سیاسی جماعتوں کو ریلیف دینے میں سرگرم ہے۔ ایک طرف تو عوام کی اکثریت عدالتوں سے انصاف کی متلاشی ہے تو دوسری طرف ان سیاسی پارٹیوں کیلئے رات کے 12 بجے اور چھٹی کے دن بھی عدالتیں لگائی جاتی ہیں۔ یہ عدلیہ کے دوہرے اور منافق کردار کی واضح مثال ہے۔ درحقیقت سرمایہ دانہ نظام میں عدلیہ سمیت تمام ریاستی اداروں کا کام ہی سرمایہ دار طبقے کی دولت اور منافعوں کا تحفظ کرنا اور محنت کش طبقے کی ہر تحریک کو کچلنا ہوتا ہے۔ لہٰذا عدلیہ، افسر شاہی، میڈیا، فوج، پارلیمنٹ سب سرمایہ دار طبقے کے رکھوالے ہیں۔
معاشی بحران کے پیشِ نظر عوام کی حالتِ زار کے باوجود اس سال پیش ہونے والے بجٹ میں محنت کش عوام کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔ بلکہ بجٹ کا بڑا حصہ سول اور ملٹری افسر شاہی اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے مختص کیا گیا ہے۔ فوج کا مجموعی بجٹ اور اس سال بیرونی قرضوں کی مد میں مختص رقم بجٹ کا 58 فیصد ہے۔ بجٹ میں تعلیم اور صحت کا تناسب انتہائی کم ہے جو ریاست کی تعلیم و صحت دشمنی کو واضح کرتاہے۔ محنت کش طبقے کے مسائل کا مداوا کرنے کی بجائے بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں کیا گیا اضافہ یہ ثابت کرتا ہے کہ حکمران طبقہ صرف سرمایہ داروں کے مفاد کیلئے کام کر رہا ہے۔
کوئی بھی حکومت ان حالات کو ٹھیک کرنے یا عوام کے مسائل کو حل کرنے کو تیار ہی نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام گل سڑ رہا ہے اور پورے سماج میں تعفن کا باعث بن رہا ہے۔ تمام مسائل کو حل کرنے کیلئے اس نظام کو اکھاڑ پھینکنا ہوگا اور ایک متبادل نظام یعنی سوشلسٹ سماج کا قیام ناگزیر ہو چکا ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ سوشلسٹ انقلاب برپا کرتے ہوئے نجی ملکیت کا خاتمہ کیا جائے تاکہ تمام وسائل کو اقلیتی طبقے یعنی سرمایہ داروں کے منافعوں کی بجائے انسانی ضرورت کیلئے استعما ل کیا جاسکے اور ایک حقیقی انسانی معاشرہ قائم کیا جاسکے۔